حضور صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم کو معراج جسمانی ہوئی

   

سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں نبی کریم علیہ الصلوۃ والسلام کو معراج جسمانی ہوئی تھی یا روحانی ؟
بہ صورت اولیٰ خرق والتیام (یعنی آسمانوں کے پھٹنے اور ملنے) کو محال سمجھنے والا شخص جو جسمانی معراج کو محال سمجھے اس کے متعلق کیا حکم ہے ؟ اور معراج میں آپ علیہ الصلوۃ والسلام کو رؤیتِ خداوند آنکھ سے ہوئی یا دل سے ؟ بینوا تؤجروا
جواب: نبی کریم صلی اﷲ علیہ و آلہٖ و سلم کو جسمانی معراج ہوئی تھی، اور یہی اہل سنت کا عقیدہ ہے، جو شخص اس سے انکار کرے وہ بدعتی ہے۔ خرق والتیام کا محال ہونا فلاسفہ کا مذہب ہے جو اسلام کے مخالف ہے۔ شرح عقائد نسفی میں ہے: والمعراج لرسول اﷲ فی الیقظۃ بشخصہ الی السماء ثم الی ماشاء اﷲ تعالیٰ من العلیٰ حق ای ثابت بالخبر المشہور حتی ان منکرہ یکون مبتدعا، وانکارہ و ادعاء استحالتہ انما یبنی علی اصول الفلاسفۃ، والا فالخرق و الالتیام علی السماوات جائز، والاجسام متماثلۃ یصح علی کل ما یصح علی الآخر واﷲ تعالیٰ قادر علی الممکنات کلھا۔ فقولہ (فی الیقظۃ) اشارۃ الی الرد علی من زعم ان المعراج کان فی المنام علی ما روی عن معاویۃ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ انہ سئل عن المعراج، فقال کانت رؤیا صالحۃ، و روی عن عائشۃ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا انھا قالت ما فقد جسد محمد علیہ السلام لیلۃ المعراج۔ وقد قال اﷲ تعالیٰ ’’وما جعلنا الرؤیا التی ارینٰـک الا فتنۃ للناس‘‘ واجیب بان المراد الرؤیا بالعین ، والمعنیٰ ما فقد جسدہ عن الروح بل کان مع روحہ فکان المعراج للروح والجسد جمیعا۔ وقولہ (بشخصہ) اشارۃ الی الرد علی من زعم انہ کان للروح فقط۔ ولا یخفی ان المعراج فی المنام او بالروح لیس مما ینکر کل الانکار والکفرۃ انکروا امر المعراج غایۃ الانکار بل کثیر من المسلمین قد ارتدوا بسبب ذلک۔ وقولہ (الی السماء) اشارۃ الی الرد علی من زعم ان المعراج فی الیقظۃ لم یکن الا الی بیت المقدس علی ما نطق بہ الکتاب۔ وقولہ (ثم ما شاء اﷲ تعالیٰ) اشارۃ الی اختلاف اقوال السلف فقیل الی الجنۃ و قیل الی العرش وقیل الی فوق العرش وقیل الی طرف العالم۔ ’’فالاسراء‘‘ ھو من المسجد الحرام الی بیت المقدس قطعی ثبت بالکتاب، ’’والمعراج‘‘ من الارض الی السماء مشہور ومن السماء الی الجنۃ او الی العرش او غیر ذلک آحاد۔ شرح فقہ اکبر مصنفہ ملا علی قاری میں ہے: (وخبر المعراج) ای بجسد المصطفے صلی اﷲ علیہ وسلم یقظۃ الی السماء ثم الی ما شاء اﷲ تعالی فی المقامات العلی(حق) ای حدیثہ ثابت بطرق متعددۃ (فمن ردہ) ای ذلک الخیر ولم یؤمن بمقتضے ذلک الاثر (فھو ضال مبتدع) معراج میں رؤیت الٰہی آپ کو آنکھ سے ہوئی یا دل سے اس میں علماء کا اختلاف ہے، بعض آنکھ سے دیکھنے کے قائل ہیں اور بعض دل سے، ہر ایک فریق نے جن احادیث سے استدلال کیا ہے وہ درج ہیں : تفسیر درمنثور جلد ۶ صفحہ۱۲۴ تفسیر سورہ والنجم میں ہے : واخرج الترمذی و حسنہ والطبرانی وابن مردویہ والبیھقی فی الاسماء والصفات عن ابن عباس فی قولہ تعالیٰ ’’لقد راٰہ نزلۃ اخری‘‘ قال ابن عباس قد رأی النبی صلی اﷲ علیہ وسلم ربہ عز وجل ۔ اسی صفحہ میں ہے: واخرج ابن مردویہ عن ابن عباس رضی اﷲ عنہ ان النبی صلی اﷲ علیہ وسلم رأی ربہ بعینہ۔ دوسرے صفحہ میں ہے : واخرج عبد بن حمید و ابن المنذر وابن ابی حاتم عن محمد بن کعب القرظی عن بعض اصحاب النبی صلی اﷲ علیہ وسلم قال قالوا یا رسول اﷲ (صلی اﷲ علیہ وسلم) ھل رأیت ربک ؟ قال لم أرہ بعینی و رأیتہ بفؤادی مرتین ثم تلا ’’ثم دنی فتدلی‘‘ واﷲ اعلم بالصواب۔ (فتاویٰ نظامیہ، صفحہ ۲اور ۳)