حیدرآباد جو کل تھا سید جعفر امیر رضوی

   

محبوب خان اصغر
انسان ازل ہی سے تدبیر گر واقع ہوا ہے ۔ اس کی ذہانت خوب منصوبے بناتی ہے اور وہ اس بات کو فراموش کر بیٹھتا ہے کہ ’’اوجِ تدبیر کی سرحد پر مقدر بھی ہے‘‘۔ وسیع و بسیط کائنات میں وہ ایسے خطے کی طرف پرواز کناں ہوتا ہے ۔ جہاں اسے بھرپور آب و دانہ مل سکے ۔ باوجود اس کے وہ اس سرزمین کو بھلا نہیں سکتا جہاں کا وہ پروردہ ہے اور اگر اس سرزمین پر قدروں کی زوال پذیری، ارتقاء کے نام پر تہذیب کی بربریت کا نہ رکنے والا سلسلہ چل پڑا ہو۔ ایک تہذیب ، ایک نظام اور ایک معاشرت دم توڑچکی ہو اور زندگی کے آسمان پر ایک نئے جہاں ، ایک نئی تہذیب اور ایک نئی معاشرت کا سورج طلوع ہوچکا ہو اور جہاں موانست ، مواہبت اور مواکلت کے جذبات مرچکے ہوں۔ بحرانی ہو ، افراتفری ہو ، معاشی پستی ہو ، زندگی کی بنیادی قدروں میں تزلزل پیدا ہوگیا ہو۔ تصادم نے وحشت ناک بنا ڈالا ہو تو ایسے میں وہ ایک اضطراب آمیز سکون سے گزرتا ہے اور کچھ ایسی ہی کیفیت سید جعفر امیر رضوی کی ہے جو اس وقت اپنی ہی سرزمین پر کچھ دنوں کیلئے قیام کئے ہو ئے ہیں۔ چنانچہ ہم نے ان سے اپنا مدعا بیان کا ہے جو بر آیا ۔ گفتگو کی تلخیص قارئین سیاست کی خدمت میں پیش ہے ۔

سید جعفر امیر رضوی کے مطابق وہ 20 مارچ 1938 ء میں منگل ہاٹ میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد کا نام سید منظور حسین رضوی تھا جنہیں ادب کا صحیح مذاق تھا۔ والد کی علم دوستی اور ادب نوازی نے انہیں بھی ادبیات اور اس کی خصوصیات سے روشناس ہونے کا موقع دیا ۔ اس زمانے کے حالات غور و فکر اور تدبر نے ان کے شعور کو پختگی عطا کی ۔ ابتدائی تعلیم گھر پر ہوئی ۔ قرآن پڑھا ۔ حدیثیں پڑھیں، بعد میں ان کا داخلہ آل سینس اسکول میں ہوگیا ۔ جہاں کائستھ اساتذہ کے ساتھ کرسچین بھی پڑھایا کرتے تھے ۔ انصاری صاحب ، خواجہ صاحب ، برادر جان اور بر ادر پال نے انہیں تعلیم دی ۔ وہ اپنے پیشے کے تئیں نہایت ایماندار اور دیانتدار تھے ۔ پابند ڈسپلن تھے ۔ وقت کے اس قدر قدرداں تھے کہ ایک لمحہ بھی ضائع کئے بغیر اپنے فرائض کو نبھایا کرتے تھے اور چاہتے تھے یہ اوصاف طلباء میں بھی پیدا ہوجائیں۔
آگے چل کر ان کا داخلہ نظام کالج میں ہوا ۔ وہاں جو اساتذہ میسر آئے ان سے غور و فکر کی گہرائیاں ملیں اور اپنے افکار و خیالات کی تشکیل میں نظام کالج کا ماحول بڑا ہی مفید ثابت ہوا ۔ وہاں کے اساتذہ کا بھی رفتہ حقیقتاً نہایت بلند تھا ۔ نصاب کے ساتھ ان کی دلچسپی تہذیبی ، ثقافتی ، علمی اور ادبی سطحوں پر بھی ہوا کرتی تھی ۔ ان کے زیر سایہ طلباء کی شخصیت کا نکھرنا اور سنورنا ایک فطری بات تھی ۔ انہوں نے بتایا کہ بی اے کی سند لے کر فکر کی جولانی کے ساتھ 1960 ء میں امریکہ روانہ ہوگئے ۔ نیوکلئیر سائنس ان انجنیئرنگ میں داخلہ لیا ۔ انہوں نے کہا کہ وہ امریکہ یا کہیں اور جانا نہیں چاہتے تھے بلکہ ان کا خواب تو گیسوئے ادب کی مشاطگی تھا اور یہ کام حیدرآباد میں رہ کر انجام دینا چاہئے تھے مگر انہیں یہاں پھلنے پھولنے کے مواقع دکھائی نہیں دیتے۔ ہماری خواہش پر انہوں نے صراحت یوں کی کہ 1937 ء کے بعد ملک کے سیاسی حالات بدل رہے تھے اور آزادی کا تقاضہ بڑھ گیا تھا ۔ کانگریس میں ہندو مہا سبھا اور آریہ سماج کے لوگ داخل ہوگئے تھے ۔ ان کی تحریکات کا کانگریس پر اثر پڑا۔ ان کا در پردہ مقصد ہندو راج کو فروغ دینا تھا ۔ انہوں نے اپنی تحریکوں میں شدت پیدا کی اور ہندو برادری میں فرقہ وارانہ خیالات کی پرورش کرنے لگے تھے ۔ وہ ان حالات سے گزرتے رہے اور ا پنے بزرگوں کی زبان تمام حالات سے انہیں آگہی حاصل ہوتی رہی ۔ یہ سلسلہ وقت کے ساتھ دراز ہوا ۔ سردست انہوں نے 1939 ء کی دوسری جنگ عظیم کا بھی ذکر کیا جس کے بعد برطانیہ کی سیاسی ساکھ کو گزند پہونچی ۔ اور مالی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ۔ اس وقت کے وائسرائے نے مناسب ہی یہی سمجھا کہ ہندوستان کو آزاد کروایا جائے ۔ وائسرائے نے پنڈت نہرو کو عارضی حکومت بنانے کیلئے دعوت دی ۔ مسلم لیگ بھی حکومت میں شامل ہوگئی ۔ 15 اگست کو دو آزاد مملکتوں ہندوستان اور پاکستان کو خونگی اقتدار دیا گیا ۔ اس اختیار کے ساتھ کہ وہ آزاد رہیں یا کسی ایک سے الحاق کرلیں۔ انہوں نے بتایا کہ پولیس ایکشن کے بعد سلطنت آصفیہ کا چراغ گل ہوگیا ، تب انہوں نے امریکہ جانے کا فیصلہ کیا ۔ ویزے کا حصول بھی آسان تھا ۔ اس وقت خود امریکہ میں غیر ملکی باشندے بہت کم نظر آتے تھے ۔ انہوں نے بتایا کہ 1960 ء میں ان کے والد جو محکمہ پو لیس میں تھے ، وظیفہ حسن خدمت پر سبکدوش ہوئے تھے ، کچھ عرصہ بعد وہ اپنے والدین کو امریکہ لے آئے ۔ انہوں نے یہ انکشاف بھی کیا کہ ان کے والد نے 1949 ء میں ایک کتاب لکھی تھی جس کا نام سلطنت حیدرآباد کے آخری ایام تھا ۔ انہوں نے امریکی باشندوں کے علاوہ ان لوگوں کے بارے میں (جنہوں نے امریکہ کو اپنا مسکن بنالیا ہے ) بتایا کہ فرض شناس اور فعالیت ان کے مزاج کا حصہ بن جاتی ہے

پولیس ایکشن کے دوران اپنا شعور سنبھالنے والے جناب رضوی صاحب نے بتایا کہ ان کے ہمعصروں میں کئی لوگ ایسے بھی ہیں جن میں خوف کی نفسیات دیکھی گئی ہیں ۔ ان کے مطابق وہ حالات ہی ایسے تھے جو بھلائے نہیں بھولتے۔ ماقبل پولیس ایکشن ریاست حیدرآباد کے مجموعی حالات کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ بڑا ہی سکون کا زمانہ تھا۔ خوف نہیں تھا جرائم کی شرح صفر تھی ۔ مذہبی تعصب نہیں تھا ۔ فرقے کئی تھے ، عبادتگاہیں بھی تھیں، ہندو دھرم شالے تھے ، سلاطین کی جانب سے خبر گیری کیلئے اعلیٰ عہدیداروں کو بھیجا جاتا تھا۔ وہ تمام مذاہب کے ماننے والوں سے ملتے تھے ۔ اس کا بھرم 1948 ء میں ٹوٹ گیا ۔ ان کا کہنا ہے کہ پولیس ایکشن کے دوران ہونے والے خون خرابے کا ذکر کرنا اس لئے بھی ناگزیر ہے کہ وہ تاریخ کا ایک حصہ ہے ۔ اس کے اظہار سے گریز کرنا بد دیانتی ہوگی چنانچہ انہوں نے بتایا کہ پنڈت جواہر لال نہرو نے ایک وفد بھیجا جس میں ہندو مسلم شامل تھے ۔ وفد نے ریاست حیدرآباد کے تمام متاثرہ حصوں کا جائزہ لیا اور جو رپورٹ پیش کی اس کی اشاعت عمل میں نہیں آئی ۔ یو این او سے بھی وفد آیا تھا ۔ وفد نے ان تمام باولیوں کو دیکھا جو نعشوں سے بھری ہوئی تھیں۔ ان کی رپورٹ کے مطابق ایک لاکھ سے زائد افراد مارے گئے تھے ۔ بیرونی وفد کی رپورٹ کو ایک فرنگی نے شائع بھی کیا تھا ۔ انہوں نے بتایا کہ اس تاریخی سانحے کی وجہ سے دو ہفتے تک مدارس بند رہے ۔ ماحول بدل گیا تھا ۔ ہندو مسلم ایک دوسرے سے کھینچے کھینچے سے رہنے لگے تھے ۔ بھائی چارگی دوستی سرد پڑگئی تھی جو موج خوں سروں سے گزری تھی اس کے اثرات عرصہ دراز تک باقی ہے۔ ماضی کی روایات اور عظمتیں لٹ گئی تھیں۔ ان خوں آشام اور تباہ کن واقعات کو بھلانا ناممکن ہے۔

جعفر امیر رضوی نے امریکہ میں ہندوستان کی نمائندگی کی اور ایک نیوکلیئر سائنسداں کے طور پر وہ کارہائے نمایاں انجام دیئے جن پر رشک آتا ہے ۔ 1960 ء تا 1990 ء یعنی تیس برس بعد وہ حیدرآباد لوٹے تو ان کیلئے سب کچھ بدل چکا تھا ۔ انہوں نے بتایا کہ گلی کوچے اپنی ہیئت بدل چکے تھے ۔ کویلی کے مکانات کو ان کی آنکھیں ڈھونڈتی رہیں۔ فلائی اوور کا ایک جنگل وجود میں آچکا تھا ۔ درخت اپنی جڑوں سمیت ندارد تھے ۔ تالاب خشک ہوچکے تھے ۔ پرندوں کے غول غائب تھے ۔ زمین بوجھ کے سبب نڈھال تھی اور آسمان ویرانی کے سبب اداس تھا ۔ ایک مکمل نسل ایک مکمل تہذیب سمیت پیوند خاک ہوچکی تھی ۔ خاندان کی لڑکیاں نانی ، دادی بن چکی تھیں۔ مادی ، ذہنی اور فکری تبدیلیوں کے ساتھ ایک نیا سماج ایک نیا معاشرہ وجود میں آچکا تھا ۔ جہاں ہر شخص بجھا بجھا سا ہے۔ جعفر امیر کے مطابق نئی نسل اپنی میراث کھوچکی ہے ۔ انہیں گفتگو کا سلیقہ نہیں ہے ۔ حفظ مراتب سے محروم ہے ۔ ادب سے دوری کے سبب غیر شائستگی ان کی ذات کا جز بن گئی ہے ۔

انہوں نے بتایا کہ ان کی دو لڑکیاں اور ایک لڑکا ہے ۔ اعلیٰ تعلیم یافتہ اور اعلیٰ عہدوں پر فائز ہیں۔ انہوں نے بچوں کو اردو پڑھنا سکھایا ہے ۔ ایک صفحہ لکھنے پر ایک ڈالر کے لالچ میں اردو نوشت و خواند کے عادی ہوچکے ہیں ۔ انگریزی میں گفتگو کرنے پر وہ ا پنے بچوں کو کوئی جواب نہیں دیتے تھے ۔ صرف اتنا کہہ دیئے ’’مجھے انگریزی نہیں آتی‘’ ۔ ناچار انہیں اردو زبان میں بات کرنی پڑتی تھی جس میں وقت کے ساتھ کافی حد تک سدھار آگیا تھا ۔ جناب امیر نیوکلئیر سائنسداں کے ساتھ شاعر ، محقق ، مترجم اور زبان داں ہیں ۔ ان کی کتابیں بہت طویل ہے تاہم کچھ کتابوں کا ذکر کئے دیتے ہیں۔ ملاکِ شاعری ، بد رنگِ دگر ، اردو کی سماوی شاعری ، ابیات میر ، سید احمد دہلوی (حیات اور کارنامے) لیکن انہوں نے دامن اردو کو جن کتابوں سے متمول کیا ہے ، ان میں قابل ذکر فرہنگ میر ، فرہنگ مترادف و متضاد ، فرہنگ موضوعی اور اردو نویسی کی جامع تاریخ ہے۔ انہوں نے متذکرہ کتابوں کی صورت گری میں اپنا وقت اور سرمایہ لگا ہے ۔ برسہا برس کی کاوشوں کا ثمرہ انہیں یوں ملا کہ کتابوں کا کوئی خریدار نہیں ہے ۔ قاری نہیں ہے ۔ انہوں نے کہا کہ جامعہ عثمانیہ نے نہ صرف ایک تعلیمی ادارے کی حیثیت سے قوم کو فائدہ پہونچایا ہے بلکہ فارغ التحصیلوں میں خود اعتمادی اور یقین پیدا کیا ہے ۔ بتایا ہے کہ زندگی کا مقصد صرف زندہ رہنا نہیں ہے بلکہ قوم کی خدمت اور اپنی تہذیب و زبان کی حفاظت بھی کرنی ہے ۔ اسی درس کے پوشیدہ اثرات تھے کہ انہوں نے اپنی زندگی کا آخری زمانہ اردو کی خدمت میں لگا دیا ہے جبکہ یہ آرام کرنے کا زمانہ ہوتا ہے ۔ مغربی اور سائنسی تعلیم کے سبب انہوں نے جو کتابیں لسانیات یا دوسرے موضوعات پر لکھیں وہ عالمی اصولوں اور معیارات پر اترتی ہیں ۔ مخصوص الفاظ ہیں۔ یہ کتاب ایک ہزار صفحات پر مشتمل چار زبانوں اردو ، فارسی ، عربی اور انگریز ی پر محیط ہے ۔ ’’فرہنگ مترادفات و متضاد‘‘ پندرہ سو صفحات اور چار زبانوں پر مشتمل ہے ۔ فرہنگ امیر ۔ فرہنگ لسان فرہنگ کافیہ ہے ۔ ان تمام لغات کی انفرادیت یہ ہے کہ اردو میں اس مضمون پر کوئی اور کتاب تین سو سال کی اردو تاریخ میں اس قدر جامع انداز میں دستیاب نہیں ہے ۔ ایران نے بھی ان کی ایک فرہنگ کو شائع کیا ہے ۔
قدیم حیدرآباد کی تہذیب و تمدن ، رسم و روایات فکر و عمل کی پیداوار جعفر امیر اور ان کی نادر و نایاب تصانیف قوم کا سرمایہ ہیں۔ ہم ان کی درازی عمر اور صحت کیلئے دعاگو ہیں ۔