دشمن میڈیا کا شکریہ

   

ساری دنیا آج اسلام کے خلاف متحدہ کھڑی ہے اور ہر ایک اپنی تمام تر توانائی اسلام کو متھم کرنے میں صرف کررہا ہے ۔ مخالفت کی تیز و تند آندھی ،کوئی ایک سمت سے نہیں بلکہ ہر سمت و جہت سے آرہی ہے ۔ اسلام اور مسلمانوں کو بدنام کرنے کیلئے ہرممکنہ تدبیریں اختیار کی جارہی ہیں ۔ میڈیا آج ہر ایک گھر میں داخل ہوچکا ہے ۔ ان پڑھ جاہل ، پڑھے لکھے تعلیم یافتہ کی کوئی قید نہیں رہی ۔ دنیا کا ہر باشندہ میڈیا کے مکر و فریب سے متاثر ہے ۔ بسا اوقات قلبی طورپر تشویش ہوتی کہ یہ تو وہ وقت تھا کہ اسلام کی خوبی اور اس کا جمال دنیا کے ہر گھر و گوشہ میں پھیلتا اور افسوس ہے کہ سوائے منفی رجحان کے کوئی چیز دنیا کو نہیں پہنچائی جارہی ہے۔ ان حالات میں ایک بات یہ معلوم ہوتی ہے کہ جب مسلمان اپنے عمل ، عزم ، ہمت ، حوصلہ ، حکمت و دوراندیشی اور ثبات قدمی سے اسلام کی حقانیت و صداقت کو دنیا کے سامنے پیش کرنے سے قاصر ہوگئے تو اﷲ سبحانہ و تعالیٰ نے یہ کام اب غیرمسلم اور دشمن میڈیا سے لے رہا ہے ۔ اس طرح کہ دشمن میڈیا اسلام کے خلاف کوئی موقعہ نہیں چھوڑ رہا ہے ، صبح شام میڈیا کے ذرائع اسلام کے بارے میں نشر کررہے ہیں ، اگرچہ وہ اسلام کی منفی صورت پیش کرہے ہیں اور بظاہر اسلام کے خلاف ایک محاذ تیار کررہے ہیں لیکن در باطن وہ اسلام کو دنیا کے گھر گھر تک پہنچارہے ہیں ، اگرچہ منفی اسلوب میں ہو لیکن ان میڈیا والوں کی پیہم کوشش سے اسلام دنیا کے ہر گھر تک پہنچ چکا ہے ۔ اب دنیا والوں کے لئے عذر باقی نہ رہا ، اب دنیا والوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ حقائق کا پتہ لگائیں اور میڈیا والوں کے بیان و طمع سازی پر اکتفاء نہ کریں بلکہ کشادہ قلبی اور حقیقت پسندانہ طریقہ پر اسلام کی تحقیق کریں اور وہ جان لیں کہ کل قیامت کے دن وہ یہ عذر پیش نہیں کرسکیں گے کہ ہم تک اسلام کی خبر نہیں آئی تھیں ۔ کسی نے اسلام کے بارے میں ہمیں کوئی اطلاع نہ دی؟ اس قسم کے کوئی اعذار کل قیامت میں چلنے والے نہیں ہیں اور یہ سارا سہرا اسلام دشمن میڈیا کے سر جاتا ہے جنھوں نے ہم مسلمانوں کے ذمہ دنیا تک اسلام کی دعوت کو پہنچانے کا جو فریضہ تھا اس کو اپنے ذمہ لیا اور کسی معاوضہ کے بغیر اسلام کے بارے میں صبح و شام دنیا والوں تک خبریں پہنچارہے ہیں اور دنیا کو اسلام کے بارے میں سوچنے پر مجبور کررہے ہیں ۔ خوش قسمت ہیں وہ لوگ جو ان کے پروپگنڈہ کی طرف توجہ نہ دیکر حقیقت کو پانے کی فکر کئے اور دامن اسلام سے وابستہ ہوگئے اور افسوس ہے ان لوگوں پر جو اسلام سے متعلق سننے کے بعد اسلام کو جاننے اور اس کی حقیقت تک پہنچنے کی کوشش نہیں کئے ۔
یہ بات ذہن نشین رکھنا چاہئے کہ دشمنانِ دین نے نبی اکرم ﷺ کو دعوت اسلام سے روکنے کیلئے جو کوششیں کیں وہ اتنی بڑی تھیں کہ اگر کسی جماعت اور قوم کے مقابلے میں کی جاتیں تو وہ میدان چھوڑ چکے ہوتے ، اسی لئے سورۂ ابراھیم میں ارشاد ہے : ’’اور انھوں نے بڑی بڑی تدبیریں کیں اور ان کی سب تدبیریں اللہ کے ہاں لکھی ہوئی ہیں گو ان کا مکر ایسا تھا کہ ان سے پہاڑ بھی ٹل جائیں ‘‘۔
(سورۃ ابراہیم ؍۴۷)
نبی اکرم ﷺ کو دعوت اسلام سے روکنے کے لئے دشمنوں نے جو سب سے پہلی تدبیر اختیار کی وہ یہ تھی کہ آپ صلی اﷲ علیہ و آلہٖ و سلم کا سایہ کی طرح تعاقب کیا جاتا ۔ آپؐ جس شخص سے بھی گفتگو فرماتے ، تعاقب کرنے والا آپؐ کی گفتگو میں مداخلت کرتا اور لوگوں سے کہتا کہ وہ آپؐ کی بات نہ سنیں کیونکہ معاذاللہ آپؐ بے دین ہیں ۔ عام طورپر یہ کام ابولہب کرتا ( ابن الجوزی : الوفا ، ۱۱۵ تا ۱۱۶) یہ بھی ہوتا کہ جب آپؐ انھیں قرآن کریم سناتے تو اتنا شوروغل کرتے کہ آپؐ کے لئے قرآن مجید کی تلاوت مخاطب کو سنانا مشکل ہوجاتا۔ آپؐ ﷺ کا تعاقب کرنے کے ساتھ ساتھ دشمنانِ اسلام نبی اکرم ﷺ کی بے ادبی کرتے اور آپؐ کے آگے اور پیچھے برا بھلا کہنے سے بھی زیادہ دل جلاتے اور انسان پر نفسیاتی طورپر اثرانداز ہوتے ۔ یہ حربہ جس شدت کے ساتھ آپؐ کے خلاف استعمال کیا گیا اس کی تاریخ عالم میں کم ہی مثالیں ملتی ہیں۔ آپؐ جس طرف بھی تشریف لے جاتے مشرکین طنزیہ فقرے کستے ۔ قرآن کریم میں ہے : ’’وہ جب آپؐ کو دیکھتے ہیں تو آپؐ کاتمسخر کرنے لگتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہی ہے جس کو خدا نے رسول بناکر بھیجا ہے‘‘ ۔
( سورۃ الفرقان ؍۴۱)
اﷲ سبحانہ و تعالیٰ کا ان کے بارے میں ارشاد ہے : ’’ہم آپ کیلئے کافی ہیں ان استھزاء کرنے والوں سے‘‘ ( سورۃ الحجر؍۸۶) ان سب طریقوں کے باوجود آپؐ نے دعوت و تبلیغ کا کام بند نہ کیا تو مشرکین کی طرف سے عتبہ بن ربیعہ نے آپؐ کو دعوت حق سے دستبرداری کی صورت میں مکہ مکرمہ کی ریاست ، عرب کے بڑے بڑے گھرانوں کی خوبصورت عورتوں سے شادی اور مال و دولت کے ذخیروں کی پیشکش کی لیکن آپؐ نے جواب میں حم السجدۃ کی آیات تلاوت فرماکر اس کی پیشکش کو ٹھکرادیا ۔( ابن ہشام : السیرۃ النبویۃ ۱: ۶۱۳)
ایک دوسرے موقعہ پر آپؐ نے فرمایا : واﷲ ! اگر یہ لوگ میرے ایک ہاتھ میں سورج اور دوسرے میں چاند بھی لاکر رکھ دیں تب بھی میں تبلیغ حق سے نہ رکونگا۔ ( کتاب مذکور ، ۱:۲۸۲)
اس پر بھی اسلام کی اشاعت جاری رہی تو دشمنانِ دین نے کمزور مسلمانوں پر ظلم و ستم کی انتہاء کردی ۔ ان لوگوں کو مشرکین بھوکا پیاسا رکھتے ، زدوکوب کرتے ، ننگی کمر پر کوڑے برساتے الغرض ہرطرح انھیں اذیت دیتے ۔ اس پر بھی جب دعوت اسلام کی تحریک جاری رہی تو بالآخر ۷؍ نبوی کو روسائے قریش کی باہمی مشاورت سے ایک معاہدہ ترتیب دیا گیا جس کے مطابق قریش اور ان کے حلیفوں نے نبی اکرم ﷺ کے خاندانِ ہاشم اور آپ کے ہم نواؤں سے معاشی و معاشرتی عدم تعاون کا فیصلہ کرلیا اور مکمل بائیکاٹ کیا ، ان پر معاشی پابندیاں عائد کردیں، ان کے خیال میںیہ تھا کہ اس طرح آپ ﷺ کو تبلیغ اسلام سے روکا جاسکتا ہے ۔جب یہ تمام حربے ناکام ہوگئے تو انھوں نے بے سروپا سوالات شروع کئے اور مطالبہ کیا کہ مکہ کی خشک پہاڑوں سے میٹھے پانی کے چشمے جاری کرکے دکھائیں، کھجور و انگوروں کے باغ اُگائے، جن کے درمیان نہریں چلتی ہوں ، اﷲ تعالیٰ کی طرف سے لکھے ہوئے خطوط لاکر بتائیں درآنحا لیکہ آپؐ سے بے شمار معجزے ظاہر ہوچکے تھے ۔ اﷲ تعالیٰ نے حکم دیا کہ آپ فرمادیں میں تو اﷲ کا پیغام پہچانے والا ہوں۔ ( اسرائیل ؍۹۔۹۴) پیغام پہنچ گیا ۔ قبول کرنا ان کی ذمہ داری ہے ۔ اسی طرح میڈیا کے توسط سے دنیا میں اسلام پہنچ گیا ۔ دنیا والوں پر تحقیق کرنا اور راہ حق تک پہنچنا لازم ہے ۔ اب دنیا کو مزید معجزات کے انتظار کرنے کی ضرورت نہیں ہے ۔ ہم عالمی میڈیا کی خدمت میں ہدیہ تشکر پیش کرتے ہیں کہ انھوں نے اسلام کا پروپگنڈہ کرکے ، اسلام کو دنیا تک پہنچادیا اور کل قیامت کے دن وہ خود اسلام نہ لانے اور غلط پروپگنڈہ کرنے کی بناء سخت عذاب کے حقدار ہوں گے ۔ مخفی مباد کہ ہم مسلمان کسی حال میں اپنے فریضہ سے غافل نہیں ہوسکتے ۔