دینداری اور تقویٰ نکاح کا اولین معیار

   

مولانا عبدالحلیم قاسمی (شیخ الحدیث ؍صدر اول لجنۃ العلماء )
نکاح ،نگاہ کو نیچی رکھنے کا ذریعہ ہے اس لئے نکاح کرنے کا حکم دیا جارہا ہے تاکہ ہماری نگاہیں پاکیزہ رہیں ۔نکاح سکون و راحت اور پاکیزہ طریقہ سے انسانی نسلوں کے وجود میں آنے کا اور خاندانوں کے بڑھنے کا ذریعہ ہے۔ نکاح کرنے کے بعد آنکھوں کی اور شرمگاہ کی حفاظت ہوجاتی ہے اور نکاح کرنے کے بعد آدمی کے خیالات بھی محفوظ ہوجاتے ہیں ۔
نکاح کے وقت چند باتیں ذہن میں رکھیں کہ نکاح کیسی عورت سے کرنا چاہئے ، نکاح کا کیا معیار ہونا چاہئے اور نکاح کیوں کرنا چاہئے ۔ نکاح کرنے کے بعد آدمی کے خیالات بھی محفوظ ہوجاتے ہیں ۔ اگر نکاح کے بعد بھی آدمی کے خیالات محفوظ نہیں رہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اُس نے نکاح کو نکاح کے جذبہ سے نہیں کیا ۔ اب دیکھیں نکاح کا معیار کیا ہونا چاہئے ۔ حضرت محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت عبداﷲ ابن مبارک رحمتہ اللہ علیہ کا قول نقل کیا ہے کہ نکاح کے چار معیار ہیں ۔ دنیا کے اندر قومیں نکاح کرتی ہیں ، ہرقوم کے نکاح کا معیار الگ الگ ہے ۔ یہودیوں کے پاس نکاح کا معیار مال ہے ۔ یہودی اس لئے نکاح کرتے ہیں کہ مال و دولت حاصل ہو ۔ جہاں مال و دولت حاصل ہو وہاں یہودی اپنا پیغام بھیجے گا اور اُسے قبول کرے گا۔ حضرت عبداللہ بن مبارک ؒ نے فرمایاکہ اگر کسی کے سامنے مال و دولت معیار ہے تو گویا اُس کے اندر یہودیت ہے ۔ جب سے یہ قوم پیدا ہوئی ہے اور جب سے یہ یہودی قوم گمراہ ہوئی ہے اُس وقت سے لے کر آج تک یہودیوں کے پاس مال و دولت معیار ہے ۔ اس کے بعد حضرت عبداللہ بن مبارک ؒ نے فرمایاکہ ایک معیار ہے حسن و جمال اور یہ معیار ہے نصاریٰ (عیسائیوں) کا ۔ وہ لوگ مال نہیں دیکھتے وہ لوگ صرف حسن دیکھتے ہیں ۔ اگر کوئی آدمی حسن کو معیار بناکر نکاح کرتا ہے تو وہ آدمی گویاعیسائی ہے ۔ اُس کے بعد ایک معیار اور بتایا کہ زمانۂ جاہلیت میں عرب افراد حسب و نسب اور خاندان کو دیکھا کرتے تھے۔ جس کا حسب و نسب و خاندان جتنا بلند ہوتا اُس حسب و نسب خاندان والی عورت سے یہ لوگ نکاح کرتے ۔ اس لئے حضرت عبداللہ ابن مبارک نے فرمایا کہ اگر کوئی آدمی حسب نسب کو معیار بناکر شادی کرتا ہے تو اُس کے اندر جاہلیت ہے ۔ اگر کوئی آدمی ڈاکٹر ، انجنیئر ، علامہ یا چاہے کچھ بھی ہو اگر وہ حسب نسب کو معیار بناکر شادی کررہا ہے تو وہ جاہل ہے ۔ اگر اُس کے پاس جاہلیت نہ ہوتی علم و عقل ہوتی تو وہ حسب نسب کو کبھی معیار نہیں بناتا۔ اس کے بعد حضرت عبداللہ بن مبارکؒ نے فرمایا کہ اسلام نے جو معیار دیا ہے وہ معیار ہے دینداری ، تقویٰ اور اللہ کا ڈر۔ لڑکے والے جب لڑکی کا انتخاب کررہے ہیں اور اُن کے سامنے مال و دولت ہے ، حسن و جمال اور حسب و نسب ہے تو آپ نے دیکھ لیا کہ یہ معیارات یہودی ، نصرانی اور جاہلوں کے ہیں ۔ لڑکا اور لڑکی کا انتخاب اگر کوئی اس معیار کو سامنے رکھ کر کررہا ہے کہ وہ کتنی پرہیزگار ہے ، کتنا اُس کے دل میں اللہ کا ڈر ہے ۔ کتنا اُس کے اندر آخرت کا خوف ہے کہ کل اﷲ کے سامنے مجھے جواب دینا ہے تو لڑکے اور لڑکی والے مسلمان ہیں، اُن کے اندر اسلام ہے ، اُن کے اندر اللہ اور اُس کے رسول کا لایا ہوا دین اور اُس کی شریعت ہے ۔ اگر یہ نہیں ہے تو کچھ بھی نہیں ہے ۔

آج نہ دولہے کو اللہ کا ڈر ہے ، نہ دلہن کو اللہ کا ڈر ہے جس کے سبب آج میاں بیوی میں اختلاف ہورہے ہیں ۔ ایک بزرگ کے پاس میاں بیوی کا مقدمہ آیا جس میں بیوی نے کہا کہ شوہر اُس کی بات نہیں سنتا جبکہ شوہر نے کہا کہ بیوی اُس کی بات نہیں سنتی ۔ یہ سُن کر اُس اﷲ والے بزرگ نے کہا: ’’ نہ تم اُن کی سنو نہ وہ تمہاری سنیں بلکہ دونوں ملکر اللہ اور اللہ کے رسولؐ کی سنو ‘‘۔ اس لئے نکاح میں کبھی بھی مال اور حسن و جمال کو معیار نہیں بنانا چاہئے ۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم نے فرمایا ’’لوگو ! کامیاب ہوجاؤ دین کو اختیار کرکے‘‘۔
نکاح کے ان سب معیارات کو بیان کرنے کے بعد رسول اللہ ﷺ کا ارشاد مبارکہ کی روشنی میں سن لیجئے کہ نکاح میں کامیابی وہاں ہے جہاں دین ہے ۔ ہم اپنی اولاد کو آج دنیا کمانے کی ہر چیز سکھارہے ہیں اور نہیں سکھارہیں ہیں تو صرف دین نہیں سکھارہے ہیں۔

اب نکاح کیوں کرنا چاہئے ؟ امام غزالی رحمتہ اللہ علیہ نے فرمایا کہ نکاح کیا جاتا ہے مخلوق کو بڑھانے کیلئے ۔ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا ’’ایسی عورت سے نکاح کرو جو زیادہ بچے پیدا کرنے والی ہو ‘‘ ۔ دوسری بات نکاح اس لئے کیا جاتا ہے کہ یہ انبیاء علیھم السلام کی اور رسول اللہ ﷺ کی سنت ہے ۔ تیسری بات نکاح کرنے کے بعد اگر تمہاری اولاد بچپن میں انتقال کرجائے تو وہ تمہارے لئے ذخیرۂ آخرت ہوگی جو تمہیں بخشائے بغیر نہیں چھوڑے گی اور اگر وہ بڑی ہوجائے گی اور تم نے اُنھیں دین سکھایا اور تمہارا انتقال ہوجائے تو وہ تمہارے لئے دعائے مغفرت کرتے رہیں گے ۔ اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ اس جذبہ کے تحت نکاح کی توفیق نصیب فرمائے ۔ آمین