راضی ہیں ہم اُسی میں جس میں تیری رضا ہے

   

فریدہ زین
دنیا کی ہرقوم اپنے اجداد اپنے اسلاف کے کارناموں کو اپنے لئے مشعل راہ بناکر چلتی ہے ۔ اسلام وہ واحد مذہب ہے جس نے اجداد کے اعمال و کارناموں کو روحانی انقلاب دیا۔ خود قرآن حکیم میں اﷲ رب العزت نے صدیقین ، صالحین اور شہداء کی عملی زندگی کو نمونہ بناکر چلنے کی ہدایت دی ۔ عمل صالح ، حق گوئی اور صبر کا بے مثال نمونۂ حیات و ممات حضرت امام حسین علیہ السلام کی ذات بابرکت ہے ۔ آپؑ کی مکمل زندگی نورِ ایمان سے لبریز ، صداقت و استقلال سے معمور ، صبر و شکر سے جلوگر اور امربالمعروف و نہی عن المنکر اور اُسوۂ حسنہ کا مکمل پیکر تھی ۔ شہادت عظمیٰ کا واقعہ تاریخ اسلام کی پہلی صدی سے لے کر آج تک خون کی سرخی سے لکھا جاتا اور اشک بار آنکھوں سے پڑھا جاتا رہا ۔ اسلامی تاریخ کا یہ خونیں باب دراصل اسرار شریعت کا سرچشمہ ہے ، جس میں بیشمار بصیرتیں پوشیدہ ہیں۔ غزوات رسولؐ اور معرکہ کربلا کا اہم ترین نکتہ یہ ہے کہ غزوات میں کفار مدمقابل تھے اور معرکہ کربلا میں خود کلمہ گو شامل تھے ۔ حق و باطل کی اس جنگ میں نہ مال غنیمت تھا نہ کشورکشائی ، ہاں لب کشائی کی ضرور اہمیت تھی یہاں اعلان حق تھا ۔ یہ بھی حقیقت ہیکہ شہادت حسینؓ کا علم خود ذات اقدس کو ہوچکا تھا ۔ حضرت اُم الفضل بنت حارث رضی اﷲ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے ایک روز حضرت نبی کریمﷺ کی خدمت اقدس میں حاضر ہوکر حضرت حسینؓ کو آپ کی گود میں دیدیا پھر میں نے دیکھا کہ آپ ؐ کی چشم مبارک سے آنسو رواں ہونے لگے ۔ میں نے عرض کیا یا رسول اﷲ میرے ماں باپ آپ پر قربان یہ کیا غم ہے ۔ آپؐ نے فرمایا میرے پاس جبرئیل آئے خبر دی کہ میری اُمت میرے اس فرزند کو شہید کرے گی اور اس شہادت گاہ کی مٹی بھی لائے ‘‘ ۔(مرآۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح)
ابونعیم نے اصبغ بن نباۃ سے روایت کی ہے کہ ہم لوگ حضرت علیؓ کے ساتھ حضرت حسینؓ کی قبر کی جگہ پر آئے تو حضرت علیؓ نے فرمایا یہاں ان شہداء کے اونٹ بندھیں گے ۔ یہاں ان کے خون بہیں گے اور آل رسول ﷺ کا ایک گروہ اس میدان میں شہید ہوگا ان پر زمین و آسمان روئیں گے۔ (خصائص کبریٰ)
جنھیں حضور اکرم ﷺ نے اپنے دو پھول کہا اور یہ بھی فرمایا کہ جس نے ان دونوں سے محبت کی اس نے مجھ سے محبت کی اور جس نے ان دونوں سے دشمنی کی اس نے مجھ سے کی ‘‘۔ (مدارج النبوت )
ان سارے احادیث کے باوجود جو خونیں واقعہ وقوع پذیر ہونا تھا سو ہوگیا ۔ یہ بات قابل فکر ہے کہ جن کے اشارے سے چاند دو ٹکڑے ہوگیا کیا وہ اشارہ یزیدیوں کی جانب نہیں ہوسکتا تھا ۔ کیا ابن سعد ، ابن زیاد، شمر کے نیزے اور تلواریں دو ٹکڑے نہیں ہوسکتی تھیں!۔ ہر بات ممکن تھی اور ہونا بھی یہی تھا اگر رضائے الٰہی پیش نظر نہ ہوتی ۔ فلسفۂ شہادت بس اتنا ہی ہے کہ ’’راضی ہیں ہم اُسی میں جس میں تیری رضا ہے‘‘۔ اس خدائے رب عزوجل کی خوشنودی اور صبر کا تقاضہ یہی تھا کہ سجدے میں جھکے اور سر کٹے ۔
حضور پاکؐ کی شان اقدس تو یہ تھی کہ آپؐ کا بار بار آسمان کی جانب دیکھنا گوارا نہ ہوا تو جبرئیل علیہ السلام کو حکم ہوا اور اس مقصد (قبلہ بدل گیا ) کی تکمیل کردی گئی کیا ایسے وقت جبکہ حضرت حسینؓ کی شہادت کا علم ہوچکا ، کربلا کی مٹی حوالے کردی گئی ، مقام مقتل دکھادیا گیا تو کیا اس وقت نگاہِ پاک سوئے فلک اُٹھ جاتی تو ، رفتار گردش لیل و نہار رُک جاتی ، کاتب تقدیر کا قلم تھم جاتا لیکن رضائے الٰہی ان سب پر فوقیت رکھتی ہے ۔لب مبارک پر سکوت رہا یہاں تک کہ سوئے مقتل جاتے ہوئے سیدالشہداء نے اپنے آخری خطاب میں اعلان کردیا : ’’تمام تعریفیں اﷲ تعالیٰ کے لئے ہیں آرام ہو یا تکلیف ہرحال میں اس کا شکر ہے ۔ اے اﷲ ! میں تیرا شکر ادا کرتا ہوں تو نے ہمیں نبوت کی عزت عطا فرمائی ، قرآن کا علم عطا فرمایا اور دین کی سوجھ بوجھ عطا کی ‘‘۔ … سلسلہ جاری
اپنے وفادار ساتھیوں کو مخاطب کرکے شاہ نے بخوشی لوٹنے کا حکم دیا حالانکہ یہ جاں نثار فدائے حسینؓ پروانہ وار شمع پر نثار ہونے بے قرار تھے اور اس زندگی کیلئے تیار نہ تھے جو حسین علیہ السلام کے بعد ہو ۔
فنا کائنات کالازمی امر ہے ، ارض و سما کی ساری رونقیں مٹنے والی ہے پھر موت کے خیال کا دکھ کیسا ۔ اُسوۂ حسنہ تو صبر و رضا ، حق گوئی و توکل کی تعلیم دیتا ہے ، حکم ربی محور حیات ، اس کے آگے کچھ نہیں ، کچھ بھی نہیں ۔
شہادت حسینؓ نے ’لا‘ کی آفاقیت بتائی ۔ ’الااﷲ ‘کا مقصد واضح کیا ۔ ’کُن فیکون‘ کا مفہوم سمجھایا ۔ ’ان اﷲ مع الصابرین ‘ کا درس دیا اور وہی اول وہی آخر کی حقیقت دکھادی۔
شب عاشور میں سجدوں کے مزے لئے گئے ۔ عبادتوں کا پورا لُطف اُٹھایا گیا ۔ شہادت کا شوق اور دیدار کاذوق تھا اس لئے نہ چشم نم ہوئی ، نہ دل نے خوف کھایا ۔ عزم محکم ہتھیار بنا ، رضائے الٰہی ڈھال بنی ،کربلا کی زمین پر پھیلی ریت کی گرمی سجدوں کے آتش شوق کے آگے ماند پڑگئی ۔ العطش کی صدا فرات تک پہونچی، موجیں اُبلنے بے قرار ہوئیں مگر حکم نہ ملا۔ کربلا کے اُداس ماحول میں شہدائے کربلا کی آخری نماز ادا ہورہی تھی ۔ سجدے مسرور تھے ، مسجود کو پانے کیلئے ، ذات حق کے دیدار سے دل منور اور حرارت ایمانی سے لبریز تھے ۔ خورشید جہاں تاب نے اُفق کے گوشے سے ڈرتے جھجکتے اپنا سر نکالا ، وہ تو چاہتا تھا کہ منہ چھپالے بادلوں کی اوٹ میں نہ وہ آئے نہ صبح ہو اور نہ روز محشر آئے … مگر حکم ربانی اِدھر دن کا کواڑ کھلا ، اُدھر طبلِ جنگ بجا، میدانِ کارزار شاہِ حسینؓ کی للکار سے دہلنے لگا : ’’میرے حسب نسب پر غور کرو کہ میں کون ہوں ؟ پھر اپنے گریبانوں میں منہ ڈالو اور سونچو کہ تمہیں میرا خون بہانا اور میری توہین کرنا جائز ہے … میں تمہارے نبیؐ کا نواسہ ہوں غور کرو تم میرے قتل پر کیسے آمادہ ہوگئے ۔ کس قصاص کا مجھ سے بدلہ لینا چاہتے ہو !‘‘ ۔
اس صدا کا اثر کسی پر نہ ہوسکا ، اور وہ وقت قیامت آیا کہ میدان کربلا کے ذرے ذرے کو خونی پیرہن ملا ۔ آفتاب نے تین دن تک منہ چھپالیا۔ کس میں تا ب و تواں تھی کہ وہ شہیدکربلا کو خاک و خون میں تڑپتا دیکھے ۔
بس وہ دن اور آج کا دن … نہ جانے کتنے آنسو بہائے گئے نہ جانے کتنی آہ و فغاں ہوئیں مگر سب آنسو ، ساری آہیں اس سانحہ عظیم کی یاد کو بھلا نہ سکے ۔ حسینؓ کا غم آفاقی غم ہے ، ہر مذہب ، ہر نسل ، ہرقوم کا انسان جو بیدار ہوچکا یہی پکارے گا کہ ’’ہمارے ہیں حسینؓ‘‘۔
حضرت امام حسینؓ کا غم عالمی حیثیت رکھتے ہوئے عالمی پیغام بھی دیتا ہے۔ ضرورت اس پیغام کو سمجھنے کی ہے ورنہ اس شہادت عظمیٰ پر صرف آنسوؤں کانذرانہ یا آہوں کا پیمانہ نچھاور کرنے سے کچھ حاصل نہیں ؎
طوفانِ نوح لانے سے اے چشم فائدہ
دو اشک بھی بہت ہیں اگر کچھ اثر کریں
شہادت حسینؓ کو صرف حق و باطل کے معرکہ تک محدود رکھنا نادانی ہوگی ۔ حق و باطل کے اندر ایک جہاں پنہاں ہے ۔ یہ حقیقت ہے ہرچیز فانی ہے مگر حسینؓ ابن علی ؓ کے لہو کے قطرے کبھی فنا نہیں ہوسکتے کہ یہ دعوت حق کے لئے بہے ہیں۔ محبت حسینؓ کا مقصد محض آنسو نہیں بلکہ اس مقصد شہادت کی اتباع ہے جو اسوۂ حسنہ کا مظہر ہے ۔ حق پرستوں کے لئے یہ شہادت ایسی دعوت ہے جو ظلمتوں سے نکال کر نور میں بلاتی ہے ، ظالم کے ظلم سے مقابلہ کیلئے کھڑا کرتی ہے ، انسانی حقوق کی غارت گری کے خلاف آواز اُٹھاتی ہے ۔ ان احکام کو ٹھکراتی ہے جو صداقت و عدالت کے خلاف ہوں۔ اس نفس سرکش کو مٹاتی ہے جو دشمن انسان ہے ۔ دریائے فرات کے کنارے کٹے ہوئے سر اور کچلے گئے جسم بہ ظاہر دوسرے کی فتح کا منظر پیش کرتے ہیں ، درحقیقت یہ وہ فتح و نصرت ہے جس نے دین کا پرچم اتنا بلند کردیا کہ اسے نیچا کرنے کے لئے پچھلے کئی صدیوں سے کوئی ہاتھ اُٹھ نہ سکا۔ اب ضرورت صرف اتنی رہ گئی ہے کہ غم حسینؓ کے ساتھ پیغام حسینؓ کو سمجھیں اور عمل کریں۔ شاید دین کی پاسبانی اس کے ناموس کیحفاظت کا مرحلہ اب جدید یزدیوں کے ساتھ معرکہ سے ہوگا ۔ مٹانے والوں کو مٹانادعوتِ حق کا اہم ترین تقاضا اور اُسوۂ حُسینی پر عمل پیرا ہونے کا جذبہ ہے ۔ سیدالشہداء نے بہتر (۷۲) نفوس کے ساتھ اپنی جان عزیز پر ۷۲ زخم کھاکر باطل سے ٹکرانے کی طاقت دی ہے ۔ سورہ ’العصر‘ کی مکمل تفسیر بن کر حقیقت بندگی سکھلادی ۔ ہماری غفلتوں کو اس ماہ محرم کے صدقے میں اﷲ رب عزوجل دور کرے اور ہمارے آنکھیں اس شعر پر مرکوز ہوکر ہمارے دل کی آنکھوں کو کھولددیں … حقا کہ بنائے لاالہٰ است حسینؑ …