رضی اللہ عنہ کا استعمال

   

سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ رضی اللہ عنہ صحابہ کیلئے بولا جاتا ہے کیا یہ اللہ تعالیٰ کے نیک بندوں ‘ ائمہ و مجتہدین کیلئے بھی کہا جاسکتا ہے یا نہیں ۔
جواب : رضی اللہ عنہ دعائیہ کلمہ ہے جو ازراہ تعظیم و تکریم صحابہ کیلئے استعمال کیا جاتا ہے ۔ جس طرح انبیاء کیلئے علیہ الصلوۃ والسلام اور علماء و صالحین کیلئے رحمۃ اللہ علیہ استعمال کیا جاتا ہے ۔ چونکہ قرآن مجید کے متعدد مقامات میں پروردگار عالم نے بطور خاص صحابہ سے متعلق اپنی رضا و خوشنودی کا اظہار فرمایا ہے جیسا کہ ارشاد ہے ’’ لَّـقَدْ رَضِىَ اللّـٰهُ عَنِ الْمُؤْمِنِيْنَ اِذْ يُبَايِعُوْنَكَ تَحْتَ الشَّجَرَةِ ‘‘ (سورۃ الفتح) ’’تحقیق کہ اللہ تعالیٰ مومنین سے راضی ہوگیا جب وہ درخت کے نیچے آپ کے ہاتھ پر بیعت کر رہے تھے‘‘۔سورۂ مجادلہ کے اختتام پر صحابہ کی تعریف و توصیف کرتے ہوئے صراحۃً فرمایا گیا : رَضِیَ اللّٰہُ عَنْھُمْ وَ رَضُوْا عَنْہُ۔’’ اللہ ان سے راضی ہے اور وہ اللہ سے راضی ہیں‘‘۔ بناء بریں فقہاء متقدمین نے صرف صحابہ کے ساتھ رضی اللہ عنہ کہنا افضل قرار دیا ۔ تابعین کیلئے رحمۃ اللہ علیہ اور ان کے بعد والے تمام مسلمانوں کیلئے کلمہ دعاء ’’غفراﷲ لہ و تجاوز عنہ ‘‘کو پسند کیا ہے ۔ جیسا کہ عالمگیری جلد ۶ص ۴۴۶میں ہے ’’ ثم الاولٰی أن یدعو للصحابۃ بالرضا فیقول رضی اﷲ عنھم و للتابعین بالرحمۃ فیقول رحمہ اﷲ تعالیٰ و لمن بعد ھم بالمغفرۃ و التجاوز فیقول غفراﷲ لھم و تجاوز عنھم ‘‘ ۔

اللہ تعالیٰ نے دیگر مقامات میں اپنے نیک بندوں اور صادقین کو بھی اپنی رضامندی کا مژدہ سنایا ہے جیسا کہ ارشاد ہے ’’ رَّضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَرَضُوْا عَنْهُ ۚ ذَٰلِكَ لِمَنْ خَشِيَ رَبَّهُ‘‘ ( سورۃ البینۃ) و نیز متاخرین علماء نے سورہ توبہ کی آیت شریفہ ’’ وَالسَّابِقُوْنَ الْاَوَّلُوْنَ مِنَ الْمُهَاجِرِيْنَ وَالْاَنْصَارِ‘‘ الآیۃ سے استدلال کرتے ہوئے علماء و صالحین اور اولیاء کاملین کیلئے رضی اللہ عنہ کہنے میں کوئی مضائقہ نہیں سمجھا جیسا کہ نزھۃ الناظرین ص ۳۴ میں ہے ۔ ’’ قال النووی رحمہ ﷲ : یستحب الترضی و الترحیم علی الصحابۃ والتابعین و من بعدھم من العلماء و العباد و سائر الاخیار ‘‘ لہذا جب یہ کلمہ ء دعاء صحابہ کیلئے معروف و مختص ہے تو غیر صحابی کیلئے اس کواستعمال نہیں کرنا چاہئے تاہم اگر کسی ایسے بزرگ اور ائمہ جو عوام الناس میں اس قدر مشہورو معروف ہو ںکہ ان کے ساتھ اس کلمہ دعاء کے استعمال سے لوگوں کو ان کے صحابی ہونے کا شک و شبہ نہ ہوتا ہو تو اس میں کوئی حرج نہیں ۔
مقتدی کاامام سے پہلے رکوع و سجود سے سر اٹھانا

سوال: کیافرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ بعض وقت دیکھا جاتا ہے کہ لوگ اس قدر جلدی میں ہوتے ہیں کہ امام کے رکوع سے اٹھنے کا انتظار نہیں کرتے اور اس سے قبل اٹھ جاتے ہیں ۔ شرعی لحاظ سے اگر کوئی امام سے قبل رکوع اور سجدہ سے سر اٹھالے تو اس کا کیا حکم ہے ؟
جواب : بشرط صحت سوال صورت مسئول عنہامقتدی پر امام کی پیروی کرنا لازم ہے۔ اگر کوئی مقتدی امام سے قبل رکوع اور سجدہ سے ا پنا سراٹھالے تو فقہاء نے صراحت کی کہ اس کے لئے دوبارہ رکوع اور سجدہ میں چلے جانا مناسب ہے تاکہ امام کی اقتداء اور اتباع مکمل ہوسکے اور امام کی مخالفت لازم نہ آئے ۔ دوبارہ رکوع اور سجدہ میں جانے سے تکرار متصور نہیں ہوگی ۔ حاشیہ الطحطاوی علی مراقی الفلاح ص : ۱۷۰،۱۷۱ میں ہے : من الواجب متابعۃ المقتدی امامہ فی الارکان الفعلیۃ فلو رفع المقتدی رأسہ من الرکوع اوالسجود قبل الامام ینبغی لہ ان یعود لتزول المخالفۃ بالموافقۃ ولا یصیر ذلک تکرار۔ فقط واﷲ أعلم