رمضان… جشن نزول قرآن کا مہینہ

   

طریقت کا دسرا اہم عنصر ’’مراقبہ حضور و شہود‘‘ ہے، جو تصوف کی روح ہے اور روزہ اس مراقبہ کی لازمی تربیت کا ذریعہ ہے۔ غور فرمائیے! سخت گرمی کا زمانہ ہے، روزے کی حالت میں شدید پیاس لگی ہے، حلق میں کانٹے پڑ رہے ہیں، گھر میں کوئی اور موجود نہیں ہے، فریج میں ٹھنڈا پانی رکھا ہوا ہے، اگر آپ ایک گلاس پانی پی لیں تو کسی کو قطعاً معلوم نہ ہوگا۔ سب آپ کو روزہ دار ہی سمجھتے رہیں گے، کیونکہ کسی نے آپ کو پانی پیتے نہیں دیکھا۔ لیکن آپ پانی نہیں پیتے، شدید پیاس برداشت کر رہے ہیں۔ کیوں؟ اس لئے کہ کوئی دیکھے نہ دیکھے، آپ کو حق الیقین ہے کہ اللہ تعالی تو دیکھ رہا ہے۔ یہی مراقبہ حضور و شہود ہے، جو طریقت کی جان ہے اور یہی مراقبہ زبان رسالت میں احسان کہلاتا ہے۔ احسان، یعنی طریقت اور تصوف یہ ہے کہ تم اللہ کی بندگی اس طرح کرو گویا تم اس کو دیکھ رہے ہو، ورنہ وہ تو تمھیں دیکھ ہی رہا ہے۔ اس مراقبہ اور اس استحضار کی تربیت رمضان میں پورے ایک مہینہ تک ہوتی ہے۔
روزہ انسان کی ذہنی، روحانی اور اخلاقی تربیت و ترقی کا واحد ذریعہ ہے، اس کے بغیر تقویٰ تک رسائی ممکن نہیں۔ روزہ ایک بھٹی ہے، جہاں یہ جسم کے فاسد مادوں کو جلاکر خاکستر کردیتا ہے، وہیں روح پر جمی ہوئی کدورتوں کو بھی جلاکر خاکستر کردیتا ہے۔ حدیث شریف میں آیا ہے کہ روزے میں خالی پیٹ ہونے کی وجہ سے غور و فکر بڑھ جاتا ہے اور حکمت کا دروازہ کھل جاتا ہے۔ طبیعت میں رسائی، قلب میں نسبت اور رقت بڑھ جاتی ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ کثرت خواب و خور سے کور باطنی اور قساوت قلبی پیدا ہوتی ہے۔

اللہ تعالی کا ارشاد ہے: ’’مسلمانو! تم پر روزے فرض کردیئے گئے ہیں، جس طرح تم سے پہلے والوں پر فرض کئے گئے تھے، اس سے یقیناً تم میں تقویٰ پیدا ہوگا‘‘ (سورۃ البقرہ۔۱۸۳) اس آیت سے جہاں روزوں کی فرضیت کا حکم ملتا ہے، وہیں یہ بات بھی معلوم ہوتی ہے کہ روزہ کوئی نئی اور انوکھی عبادت نہیں، پچھلی امتوں پر بھی روزے فرض تھے، یہ اور بات ہے کہ مدت اور نوعیت الگ تھی۔ مثلاً کسی امت کو ایام بیض یعنی ہر قمری مہینہ کی ۱۳، ۱۴ اور ۱۵؍ تاریخ کے روزوں کا حکم تھا اور کسی امت کے لئے خاموشی کو روزہ قرار دیا گیا تھا۔ مثلاً حضرت زکریا علیہ السلام اور حضرت مریم علیہا السلام کا روزہ۔ اسی طرح کسی امت پر ایک دن آڑ کے روزے فرض تھے۔ مثلاً حضرت داؤد علیہ السلام کے روزے اور کبھی پورے دن اور رات یعنی ۲۴ گھنٹے کا روزہ تھا، اس طرح کہ رات کو سو گئے تو روزہ شروع ہو گیا، دوسرے دن بھی کچھ کھا پی نہیں سکتے تھے۔ شریعت محمدی میں بھی ابتدائً اسی طرح کا روزہ فرض تھا، لیکن بعد میں روزے کی موجودہ مدت مقرر کردی گئی۔

اللہ تعالی کا ارشاد ہے: ’’رمضان وہ مہینہ ہے، جس میں قرآن نازل کیا گیا، جو انسانوں کے لئے سراسر ہدایت ہے اور ایسی واضح تعلیمات پر مشتمل ہے، جو راہ راست دکھانے والی اور حق و باطل کا فرق کھول کر رکھ دینے والی ہیں۔ لہذا جو شخص اس مہینہ کو پائے اس کو لازم ہے کہ اس پورے مہینہ کے روزے رکھے‘‘۔ (سورۃ البقرہ۔۱۸۵)
یوں تو رمضان کو کئی وجوہ سے فضیلت حاصل ہے، مثلاً اس میں اللہ تعالی کی رحمت عام ہوتی ہے، مغفرت بے پناہ ہوتی ہے اور دوزخ سے نجات کا راستہ نکل آتا ہے۔ اس مہینہ میں نوافل کا اجر فرض کے اجر کے برابر کردیا جاتا ہے اور فرض کا ثواب ستر گنا بڑھا دیا جاتا ہے، لیکن رمضان کی ایک بڑی فضیلت جو قرآن سے معلوم ہوتی ہے، وہ یہ ہے کہ اس مہینہ میں قرآن نازل ہوا۔ یہ پورا مہینہ اب جشن نزول قرآن کا مہینہ ہے، یعنی اس پورے مہینہ میں نزول قرآن کی سالگرہ ہوتی ہے اور قرآن بنی نوع انسان کی ہدایت کے لئے اللہ تعالی کا آخری پیغام ہے، جس کی جتنی بھی خوشی منائی جائے کم ہے۔ اللہ تعالی کا ارشاد ہے: ’’کہو کہ یہ اللہ کا فضل اور اس کی مہربانی ہے کہ یہ چیز اس نے بھیجی، اس پر تو لوگوں کو خوشی منانی چاہئے‘‘ (سورہ یونس۔۵۸) اس مہینہ میں اس نعمت عظمی کا امین بناکر اس امت کو خیر امت بنایا گیا۔
ان ہی فضائل کی وجہ سے اس مہینہ کو اللہ تعالی نے اپنا مہینہ قرار دیا اور ان ہی فضائل و برکات کی وجہ سے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس مہینہ کا شدت سے انتظار رہتا تھا۔ دو ماہ پہلے سے آپﷺ اس مہینہ کے استقبال کے لئے تیار ہو جاتے تھے۔ رجب کا چاند دیکھ کر آپﷺ دعا فرماتے تھے کہ ’’اے اللہ! ہمارے لئے رجب اور شعبان کے مہینے میں برکت عطا فرما اور ہمیں رمضان تک پہنچا دے‘‘۔ اس مہینہ میں شیاطین کو بیڑیاں پہنا دی جاتی ہیں۔ جی ہاں! شیاطین کی یہ قید ہمیں نظر نہیں آتی، لیکن اس کے اثرات ضرور محسوس ہوتے ہیں۔ اسی قید کا اثر ہے کہ گناہ کے تقاضے ختم ہو جاتے ہیں اور نیکیوں کا عام رجحان پیدا ہو جاتا ہے۔ ہر مسلمان چاہتا ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ نیک کام کرکے اجر و ثواب حاصل کرے۔

مسلمانوں کو چاہئے کہ اس ماہ مبارک میں نفلی عبادت کا اہتمام زیادہ سے زیادہ کریں، تلاوت قرآن اور فہم قرآن کی کوشش کریں، صدقات اور ذکر کی کثرت کریں، استغفار کی کثرت کریں اور دعائیں زیادہ سے زیادہ مانگیں، کیونکہ یہ قبولیت دعا کا مہینہ ہے۔ مختلف اوقات میں اللہ تعالی کی رحمتیں نازل ہوتی رہتی ہیں، سحر اور افطار کے وقت خاص طورپر۔ اگر آپ تہجد کے عادی نہیں ہیں تو اس مہینہ میں اس کے عادی بن جائیں، تہجد کا عادی بننے کے لئے رمضان بڑا اچھا موقع فراہم کرتا ہے۔ تہجد کا وقت آغاز فجر تک رہتا ہے۔ فجر سے پہلے سحر کا وقت ہے، اسی وقت سحری کھائی جاتی ہے، جس کے لئے لازماً اٹھنا ہوتا ہے، اسی میں کچھ وقت نکال کر کم از کم چار رکعت ہی سہی تہجد پڑھ لیا کریں۔ تہجد، فرض نمازوں کے بعد سب سے افضل ترین نماز ہے، طریقت میں اس نماز کا خاص اہتمام کیا جاتا ہے۔ یہ نماز بندے کو اللہ تعالی کے ساتھ تخلیہ فراہم کرتی ہے، یہ راز و نیاز والی نماز ہے، بندے کا اللہ تعالی سے براہ راست تعلق قائم ہوتا ہے، لہذا اس موقع کو ہرگز ضائع نہ کریں۔