روح کو سنوارنے کی ضرورت

   

عبداﷲ خالد قاسمی
آج یہ عام شکایت ہے کہ اطمینان قلب حاصل نہیں رہا، ذہنی انتشار بہت ہے ، طرح طرح کی اُلجھنیں اور پریشانیاں زندگی کواجیرن بنائے ہوئے ہیں ، ہر آدمی مختلف مسائل میں اُلجھا ہوا ہے اور انواع و اقسام کی پریشانیوں میں مبتلا ہے ، دنیا میں ہر شخص کسی نہ کسی وجہ سے ’’پریشانی‘‘ اور ’’ذہنی دباؤ‘‘ میں ضرور مبتلا ہوتا ہے ، میڈیکل سائنس کیونکہ صرف نظر آنے والی چیزوں کو قابل علاج سمجھتی ہے اس ٖلئے اس کے نزدیک اس کا واحد علاج نیند کی گولیاں یا زیادہ نہ سوچنا ہے ، انسان نے اپنا غم غلط کرنے کے لئے ’’پریشانی‘‘ اور ’’ذہنی دباؤ‘‘ سے نجات کیلئے مختلف شیطانی کاموں کا سہارا لینا شروع کیا ہے لیکن خوشی پھر بھی میسر نہیں، اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ خوشی اور زندگی کے سکون کا تعلق اُن کاموں اور گناہوں میں بالکل نہیں ہے ۔

سُکون اور دل کا اطمینان ایک نعمت خداوندی ہے اس کے حصول کے لئے حکیم مطلق خالق کائنات نے انساانیت کو جو نسخۂ کیمیا عطا فرمایا ہے اس میں واضح طور سے موجود ہے کہ ’’اﷲ کے ذکر سے دلوں کو سکون حاصل ہوتا ہے ‘‘ ، یعنی اطمینان قلب اور زندگی میں سکون صرف اﷲ سے تعلق اور اس کی یاد سے ہی حاصل ہوگا ، اور اﷲ سے تعلق اسی وقت استوار ہوگا جب انسان کی روح آسودہ ہوگی ، اس کو اس کی حقیقی غذا ملتی رہے گی ، روح کیونکہ آسمان سے آئی ہے اس لیے اس کی خوراک بھی آسمان سے ہی ملے گی ، ہماری روح زندگی بھر اپنے اصل کی طرف پلٹنے اور اس کو حاصل کرنے کے لئے تڑپتی رہتی ہے اور ہم اسے دنیاوی ساز و سامان سے بہلاتے رہتے ہیں ۔

جب کبھی کہیں ہم اکیلے میں ہوتے ہیں ، روح پھر بیچین ہوجاتی ہے، ہم اس کو کبھی ’’پریشانی‘‘ اور کبھی ’’ذہنی دباؤ‘‘ کا نام دے دیتے ہیں ، ہم نیند کی گولیاں کھاکھاکر اپنے ضمیر کو سلاتے ہیں لیکن وہ پھر جاگ جاتا ہے، کیونکہ اس کو بھی غذا کی ضرورت ہے اور اس کی غذا آسمان سے آئی ہے اس کو وہی ملے گی تو اس کو خوشی ، اطمینان اور سکون نصیب ہوگا ۔ یہ نظام قدرت ہے کہ اﷲ رب العزت ہمیشہ انسانوں کے اعمال و کردار کی بنیاد پر ان کی ترقی و تنزلی کا فیصلہ فرماتے ہیں ، آرام و سکون اور قلبی اطمینان اسی وقت حاصل ہوتا ہے جب انسان اچھے اعمال و کردار کا حامل بن کر اپنی روح کو اس کی حقیقی غذا فراہم کرتا ہے اور اعمال خیر کا خوگر بن جاتا ہے اور اسی کے مطابق اپنی زندگی گزارتا ہے ، بے چینی ، ذہنی انتشار اور قلبی بے اطمینانی انسان کا اس وقت مقدر بن جاتی ہیں جب وہ خدا تعالیٰ کے مقرر کردہ اصول و ضوابط اور ضابطۂ حیات سے ہٹ کر زندگی کی دوڑ میں شامل ہوتا ہے ۔

آج ہم نے اپنے اعمال و کردار کو منشائے خداوندی کے خلاف کرلیا ہے ، دنیا کی حرص و ہوس میں ہم نے نظامِ خداوندی کو پسِ پشت ڈال دیا ہے ، خدائی اصولوں کے بجائے دشمنانِ اسلام کے متعین کردہ ترقی و تنزلی کے معیار کو درست اور صحیح سمجھ لیا ہے اور اس کو اپنانے کی فکر اور لگن میں رات دن منہمک اور مشغول و مصروف ہوگئے ہیں، آج اکثر کی زندگی دینی اُمور کی بجاآوری کے بجائے غیرشرعی اور غیردینی اُمور میں مصروف دکھائی دیتی ہیں۔ برکتوں اور سعادتوں سے بھرپور مہینہ ’’رمضان‘‘ کی آمد ہوچکی ہے ، تقویٰ اور طہارت کے حصول کے بہترین ایام ہمیں موقع فراہم کررہے ہیں کہ اس ماہِ مبارک میں روح کو بالیدگی اور اس کو غذا فراہم کریں۔

اسلام کی ہر عبادت انسانی فطرت کے عین مطابق اور انسان کے جسمانی و روحانی وجود کے لئے مفید اور نفع بخش ہے کیونکہ انسان جسم و روح کا مجموعہ ہے ان دونوں کے اتصال سے انسان وجود میں آتا ہے ،محض جسم کو انسان نہیں کہیں گے اور صرف روح سے انسان کا تصور محال ہے لیکن روح اصل ہے اور جسم اس کیلئے ظرف ہے ،لہذا عبادات کا بنیادی مقصد تو روح کی اصلاح اور اس کو فطرت پر قائم رکھنا ہے، لیکن جب روح میں طہارت و لطافت پیدا ہوگی اور وہ ملکوتی صفات سے آراستہ ہوگی تو اس کے اثرات جسم پر یقینی طور سے پڑیں گے ، اگر کسی عمل کا اثر جسم پر مرتب ہوتا ہے تو ضروری نہیں کہ روح بھی اس سے مستفید ہو اور اس عمل کا روحانی نفع حاصل ہو ، اس نفع کے حصولیابی کے لئے نیت و اخلاص کی شرط لگائی گئی ہے کہ جب کوئی عمل یا عبادت محض اﷲ کی رضا و خوشنودی کے جذبہ سے کیا جائے گا تو روح میں پاکیزگی ، اصلاح اور نورانیت پیدا ہوگی اور آخرت میں اس کا ثواب حاصل ہوگا ۔ مزید برآں جسمانی فوائد تو حاصل ہوں گے ہی ۔ چوں کہ سال کے گیارہ مہینے انسان مرغن غذاؤں اور مقویات سے جسم کو توانا اور نفس کو قوت پہنچاتا رہتا ہے جس کے باعث روح پر اس کا مسلسل دباؤ رہتا ہے اور نفس کا غلبہ قائم و برقرار رہتا ہے لیکن جب ماہِ رمضان آتا ہے تو اہل ایمان فرض روزوں کے ذریعہ روح کی تقویت و لطافت کا سامان کرتے ہیں ۔ اوقات صوم میں کھانے پینے اور جماع سے اجتناب نفس کے ضعیف و ناتوانی کا باعث ہے ، جب نفس کمزور ہوتا ہے تو روح کا اس پر غلبہ ہوجاتا ہے جو بندہ کو مائل بہ خیر و صالحیت کرنے کاموجب ہوتا ہے ، اور انسان کو ظاہری و باطنی گناہوں سے پاک و صاف کرکے بدن اور روح کو پاکیزگی و لطافت سے مزین کرتا ہے جس کے باعث قرب الٰہی کا حصول ممکن ہوپاتا ہے ، عبادات و فرائض کی ادائیگی اور حقوق کی تکمیل ، اعلیٰ اخلاقی تربیت اور مومنانہ کردار کی جو مشق رمضان مبارک میں ہوتی ہے اس کو عملاً تواتر کے ساتھ آنے والے گیارہ مہینے بلکہ ساری زندگی جاری رکھیں تاکہ روح کو اس کی غذا ملتی رہے اور انسان اطمینان اور سکون کے ساتھ زندگی کی شاہراہ پر گامزن ہوکر خالق کائنات رب العلمین کے افضال و اکرام کا مستحق بنے اور دنیا کے ساتھ ساتھ اُخروی نعمتوں سے سرفراز ہوسکے ۔