روزہ… ضبط نفس کا بہترین ذریعہ

   

پروفیسر سید عطاء اللہ حسینی قادری الملتانی

معرفت کا ایک تقاضا ہے اور وہ ہے ’’مراقبۂ حضور و شہود‘‘۔ یہ مراقبہ تصوف و طریقت کی روح ہے، یہ کلید طریقت ہے، اللہ تعالی کا ارشاد ہے: ’’اور اللہ ہر چیز کو دیکھ رہا ہے‘‘۔ (سورۃ لاحزاب۔۵۲)
حدیث جبرئیل میں ’’احسان کیا ہے؟‘‘ کے جواب میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’احسان یہ ہے کہ تم اللہ کی بندگی اسی طرح کرو، گویا تم اس کو دیکھ رہے ہو، کیونکہ اگرچہ تم اس کو نہیں دیکھتے ہو، مگر وہ تو تم کو دیکھتا ہی ہے‘‘۔ بندہ چوں کہ اللہ تعالی کو نہیں دیکھ سکتا، اور اس کاادراک نہیں کرسکتا، اسی لئے حضور اکرم ﷺنے ’’گویا کہ‘‘ فرمایا۔ دوسری صورت یہ ہے کہ خدا تو بندے کو دیکھتا ہی ہے۔
مراقبہ یہی ہے کہ بندے کو معلوم ہو کہ اللہ اسے دیکھ رہا ہے اور بندہ کا اس حالت میں ہمیشہ اپنا مراقبہ ہے، یہ مراقبہ ہر نیکی کی اصل ہے۔ جس شخص کو یہ مراقبہ حاصل نہ ہو، وہ وصل کے ابتدائی مدارج تک بھی نہیں پہنچ سکتا۔ یہاں یہ بات یاد رہے کہ بندگی کی اس احسانی کیفیت کو صرف نماز تک مخصوص اور محدود کرلینا صحیح نہیں، کیونکہ اس تخصیص کے لئے حدیث میں کوئی قرینہ موجود نہیں ہے۔ احسان کا تعلق صرف نماز ہی سے نہیں، بلکہ انسان کی پوری زندگی سے ہے۔
ایک غلام اپنے آقا کے حکم کی تعمیل اس وقت کرتا ہے، جب اس کا آقا اس کے سامنے موجود ہو اور غلام کو دیکھ رہا ہو تو ایسے وقت غلام کے کام کرنے کا طریقہ کچھ ہوگا اور دوسری صورت یہ ہے کہ غلام آقا کی غیر موجودگی میں کام کر رہا ہو اور آقا اس کو دیکھ نہ رہا ہو اب غلام کے کام کرنے کا انداز کچھ اور ہوگا۔ یہی حال بندے کا اللہ کے ساتھ ہے۔ جب اسے یقین ہو کہ خدا مجھے دیکھ رہا ہے تو اس کی بندگی میں ایک خاص شان نیاز مندی ہوگی اور ایک خاص حسن ہوگا۔ بندہ سمجھ لے کہ اس کے تمام افعال، اعمال، حالات اور خیالات سب کچھ اللہ دیکھ رہا ہے۔ وہ اس کا ظاہر بھی دیکھ رہا ہے اور باطن بھی، تو اس سے انسان کا ظاہر و باطن دونوں سنور جائیں گے اور وہ حق تعالی کے مقام قرب میں پہنچ جائے گا۔ایک شیخ کے مریدوں میں ایک نیا ارادت مند داخل ہوا اور چند ہی دنوں میں اس نے شیخ کے نزدیک ایک خاص مقام بنالیا۔ دوسرے مریدوں کو رشک ہونے لگا، عرض کیا ’’حضرت! اس نووارد میں ایسی کیا بات ہے کہ وہ چند ہی دنوں میں آپ کا منظور نظر ہوگیا؟‘‘۔ شیخ نے کہا ’’تم میں سے ہر شخص ایک کبوتر لے آئے تو میں اس کا جواب تمھیں دوں گا‘‘۔ سب نے حکم کی تعمیل کی۔ اب شیخ نے کہا ’’ہر شخص اب اپنا کبوتر کسی ایسی جگہ جاکر ذبح کرکے لے آئے، جہاں اسے کوئی دیکھتا نہ ہو‘‘۔ سب نے حکم کی تعمیل کی اور اپنا اپنا ذبح کیا ہوا کبوتر پیش کردیا، مگر وہ نووارد بڑی دیر تک نہ آیا اور جب آیا تو اس حال میں کہ اس کے ہاتھ میں زندہ کبوتر تھا، یعنی ذبح نہیں کیا تھا۔ شیخ نے وجہ پوچھی کہ ’’تم نے اپنا کبوتر ذبح کیوں نہیں کیا؟‘‘۔ نووارد نے عرض کیا ’’حضرت! مجھے کوئی ایسی جگہ نہیں ملی، جہاں کوئی دیکھتا نہ ہو، میں جہاں بھی گیا وہاں اللہ دیکھ رہا تھا‘‘۔ اب شیخ نے سب کو نووارد کے مقرب ہونے کی وجہ بتائی کہ ’’اسے آئے ہوئے چند دن ہوئے ہیں، لیکن وہ مراقبہ حضور و شہود میں درجہ کمال تک پہنچ گیا ہے اور تمہارا یہ مراقبہ ابھی اس درجہ کو نہیں پہنچ سکا‘‘۔جس کا یہ مراقبہ جتنا قوی اور مستحکم ہوگا، وہ خدا کے نزدیک اتنا ہی مقرب ہوگا۔ ہم اور ہمارا دل تو پھر بھی بڑی چیز ہے، اگر زمین کے سیکڑوں میل اندر بھی کسی کالے پتھر پر کوئی کالی چیونٹی چل رہی ہے تو اللہ اس چیونٹی کو بھی دیکھتا ہے اور اس کے پاؤں کی آواز بھی سنتا ہے۔ دعا کریں کہ اللہ تعالی ہم سب کو اس مراقبہ میں درجہ کمال تک پہنچاکر اپنی معرفت نصیب فرمائے۔ (آمین)ہر مسلمان ماہ رمضان المبارک کے فضائل سے متعلق کچھ نہ کچھ جانتا ہے۔ سید الطائفہ حضرت جنید بغدادی رحمۃ اللہ علیہ روزے کو ’’نصف الطریقۃ‘‘ یعنی آدھی طریقت فرمایا کرتے تھے، لیکن حضرت داتا گنج بخش رحمۃ اللہ علیہ نے ساری طریقت کو روزے میں پوشیدہ بتایا ہے۔ چنانچہ وہ فرماتے ہیں ’’روزے کی حقیقت ’’امساک‘‘ ہے، یعنی خواہشات نفس کو روکنا اور نفس کو قابو میں رکھنا، ساری طریقت اسی میں پوشیدہ ہے‘‘۔ ناچیز (راقم الحروف) کا خیال ہے کہ اگر روزہ مکمل طریقت نہیں تو کم از کم طریقت کی روح کو قائم و دائم رکھنے والی عبادت ضرور ہے۔ کیونکہ طریقت میں دو چیزیں بڑی اہم ہیں، ایک مخالف نفس اور دوسری مراقبہ حضور و شہود، اور یہ دونوں چیزیں روزے سے مکمل طورپر حاصل ہوتی ہیں۔