سر بوقت ِموت اپنا ، اُن کے زیر پائے ہے

   

محبت کا ایک سبب یہ بھی ہوتا ہے کہ کوئی ہم سے محبت کرتا ہو تو جواب میں ہم بھی اس سے محبت کرنے لگتے ہیں۔ ہم تو آج حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کا دَم بھر رہے ہیں، لیکن چودہ سو برس پہلے خود حضورﷺ نے ہم سے اپنی محبت کا اعلان فرمادیا تھا۔ صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی علیہم اجمعین کی موجودگی میں ایک مرتبہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے خود کلامی کے انداز میں فرمایا: ’’میں اپنے احباب سے کب ملوں گا؟‘‘۔ صحابۂ کرام کو حیرت ہوئی کہ حضورﷺ کے یہ احباب کون ہیں؟ جن سے حضور ملنا چاہتے ہیں۔ عرض کیا: ’’یارسول اللہ! کیا ہم آپ کے احباب نہیں ہیں؟‘‘۔ فرمایا: ’’تم میرے اصحاب ہو، میرے احباب وہ ہیں، جو میرے بعد آئیں گے اور مجھے دیکھے بغیر مجھ پر ایمان لائیں گے‘‘۔ غور فرمائیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم گنہگاروں کو کہاں سے کہاں پہنچا دیا، اپنی بارگاہ اقدس میں ہم نابکاروں کو کیسی عزت دی ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم گنہگاروں کو ’’اپنے احباب‘‘ میں شمار فرمایا ہے۔ اللہ تعالی کی رحمت ہم پر ٹوٹ کر برس رہی ہے، ہمارے گھروں میں کیسی بہار آئی ہے، ہمارے دل کے ویرانوں میں کیسا چراغاں ہوا ہے، خالق کائنات کے محبوب حضور سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم ہم نالائقوں سے محبت فرما رہے ہیں، کیا اب بھی ہم ان سے محبت نہ کریں گے؟۔
ہم گنہگاروں کے لئے یہ کیسا مژدۂ جانفزا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم بھاگے ہوئے غلاموں کو اپنا دوست اور حبیب بنالیا ہے، اس سے بڑی خوش خبری دونوں جہانوں میں کوئی اور نہیں ہوسکتی؟۔ دنیا میں ہے کوئی انسان، جو ہم کو دیکھے بغیر ہم سے محبت کرتا ہو؟ نہیں، کوئی نہیں ہے۔ یہ اسی مقدس ذات کا ظفر ہے، جن کے بارے میں اللہ تعالی کا ارشاد ہے کہ ’’آپ اخلاق کے بڑے مرتبہ پر فائز ہیں‘‘ (سورۃ القلم) ہماری شب و روز کی ہزاروں نافرمانیوں کے باوجود ہم سے محبت فرما رہے ہیں۔
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہماری محبت کے صرف مستحق ہی نہیں، بلکہ سب سے زیادہ مستحق ہیں۔ ہم سے آپﷺ کی محبت کا تقاضہ ہے کہ ہم بھی آپﷺ پر دل و جان سے قربان ہو جائیں۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو بادشاہت کی پیشکش کی گئی، لیکن آپﷺ نے بہ نگاہ حقارت ٹھکرا دیا۔ ہر عیش و آرام سے دست بردار ہوکر زندگی بسر کی، زندگی بھر تکلیفیں اٹھاتے رہے، وطن سے بے وطن ہوئے، کس کے لئے؟۔ ہمارے لئے، تاکہ ہم تک حق کا پیغام پہنچ جائے اور ہماری دنیا و آخرت سنور جائے۔ کیا اپنے اس محسن اعظم صلی اللہ علیہ وسلم کو تم فراموش کردوگے؟ ان کا حق محبت بھول جاؤگے؟ ان سے منہ موڑ لوگے؟۔ نہیں نہیں، ہم یہ نہیں کرسکتے، ہم بھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کرتے ہیں۔ اپنے ماں باپ، اپنی اولاد اور تمام انسانوں سے زیادہ ہم کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت ہے۔ یہ محبت ہمارے ایمان کی بنیاد ہے اور ہمارے ایمان کا اولین تقاضا ہے۔
صحابۂ کرام رضوان اللہ تعالی علیہم اجمعین حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے کیسی محبت کرتے تھے؟، ان کی محبت کو سمجھنے کے لئے میدانِ اُحد پر ایک نظر ڈال لیں۔ حق کے منکروں نے مسلمانوں پر یلغار کردی، حضورﷺ پر تیر برسائے جا رہے ہیں۔ حضرت ابودجانہ رضی اللہ تعالی عنہ ڈھال بن کر کھڑے ہوئے ہیں، تیر ان کے جسم میں آکر پیوست ہو رہے ہیں، لیکن وہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو تیروں کی زد سے بچانے کے لئے آپﷺ پر جھکے ہوئے ہیں، ان کی پیٹھ چھلنی ہوچکی ہے۔ مشرکین نے آپﷺ پر ہجوم کیا تو دس جاں نثار آپﷺ کے سامنے آگئے اور سب ایک ایک کرکے آپﷺ پر قربان ہوتے گئے۔ حضرت طلحہ بن عبد اللہ رضی اللہ تعالی عنہ اپنے ہاتھوں پر تیروں کو روک رہے ہیں، ساری انگلیاں زخمی ہوچکی ہیں اور ہاتھ مفلوج ہوگیا ہے۔ حضرت انس بن نضر رضی اللہ تعالی عنہ انصار و مہاجرین کے کچھ لوگوں کے پاس سے گزرے، دیکھا سب مایوسی کے عالم میں ہیں۔ پوچھا کیسے بیٹھے ہو؟۔ بولے: ’’حضور صلی اللہ علیہ وسلم شہید ہو چکے ہیں!‘‘۔ حضرت انس بن نضر نے کہا: ’’تو پھر آپﷺ کے بعد زندہ رہنے کا کیا فائدہ؟‘‘ یہ کہہ کر آگے بڑھ گئے اور لڑتے ہوئے جان، جان آفریں کے سپرد کردی۔ ان کے بھتیجے انس بن مالک کہتے ہیں کہ اس دن ان کے جسم پر ستر (۷۰) زخم شمار کئے گئے اور چہرہ ناقابل شناخت ہوچکا تھا، صرف ان کی بہن نے انھیں اُن کی انگلی سے پہچانا۔
حضرت زیاد بن سکن رضی اللہ تعالی عنہ پانچ انصار کے ساتھ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت کرتے ہوئے لڑ رہے ہیں۔ سب ایک ایک کرکے شہید ہو جاتے ہیں اور حضرت زیاد زخموں سے نڈھال ہوکر گرپڑے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ان کو میرے قریب لے آؤ‘‘۔ لوگ اٹھاکر لائے اور حضورﷺ کے سامنے لٹا دیا۔ حضرت زیاد بن سکن جاں بلب ہیں، حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا سر اپنے قدم مبارک پر رکھ لیا اور اسی حالت میں ان کی روح پرواز کرگئی۔ غور فرمائیے! حضرت زیاد کو کتنی بہترین موت نصیب ہوئی، جس پر ہزاروں زندگیاں قربان!۔
سربوقت موت اپنا ، ان کے زیر پائے ہے
یہ نصیب اللہ اکبر! لوٹنے کی جائے ہے
مدینہ منورہ کی ایک انصاری صحابیہ، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خیریت معلوم کرنے کے لئے پریشان ہیں۔ بے چین ہوکر دریافت کرنے کے لئے خود نکل کھڑی ہوئیں۔ راستے میں کسی نے بتایا کہ تمہارے والد شہید ہو گئے۔ خاتون نے کہا: ’’حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا حال بتاؤ، حضور کیسے ہیں؟‘‘۔ کچھ دور آگے چلیں تو کسی نے بتایا کہ ’’تمہارا شوہر شہید ہو گیا‘‘۔ بولیں : ’’پہلے حضورﷺ کا حال بتاؤ‘‘۔ کچھ دور آگے بڑھیں تو کسی نے بتایا کہ ’’تمہارا بیٹا شہید ہوگیا‘‘۔ بولیں: ’’پہلے حضورﷺ کا حال بتاؤ‘‘۔ اسی حال میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا حال دریافت کرتے ہوئے وہ احد تک پہنچ گئیں۔ وہاں معلوم ہوا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے شہید ہوجانے کی اطلاع درست نہیں، افواہ تھی، حضورﷺ سلامت ہیں۔ کہنے لگیں: ’’مجھے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو دکھاؤ، میں خود دیکھنا چاہتی ہوں‘‘۔ اور جب حضورﷺ کو دیکھ لیا تو بولیں: ’’حضور آپ سلامت ہیں تو اب ہر مصیبت ہیچ ہے‘‘۔ (اقتباس)