سیدنا الامام حبیب عیدروس بن حسین العیدروس العلوی الحسینی رحمۃ اللہ تعالیٰ

   

مولانا حبیب سہیل بن سعید العیدروس

حبیب عیدروس بن حسین بن احمد العیدروس کی پیدائش سے قبل آپ کے والد محترم حبیب حسین ؒکو بیداری و خواب ہر دو عالم میں بشارتیں ہونے لگیں کہ اﷲ رب العزت انھیں ایک صالح ولدجو اولیاء وقت کا سلطان ہوگا عطا فرمانے والا ہے اور اس کا اسم گرامی عیدروسؒ ہوگا ۔ بالآخر بشارتیں حقیقت میں تبدیل ہوئیں اور حبیب عیدروسؒ سرزمین یمن پر تولد ہوئے۔ ولادت کے ساتویں روز سنت کے مطابق عقیقہ ہوا اور بشارتوں کے بموجب آپؒ کا اسم گرامی عیدروسؒ رکھا گیا۔دوران رضاعت ہی سے حبیب عیدروسؒ نے اپنی کرامات کے جوہر بکھیرنے شروع کردئے تھے اور اﷲ تعالیٰ نے آپؒ کو پیدائش کے ساتھ ہی بہترین قوتِ نطق عطا فرمادیا تھا جس کے سبب آپؒ اکثر ذکر الٰہی فرماتے ۔ آپؒ کی نشوونما دیگر بچوں سے جداگانہ تھی ۔ ایک سال نو ماہ میں آپؒ نے دودھ پینا ترک فرمادیا اور اسی کمسنی میں آپؒ بھائیوں اور خدام کے ساتھ علامہ محمد بن عوض کے مکتب میں آنے جانے لگے ۔ خداداد قوت حافظہ و ذوکات کا یہ عالم تھا کہ مکتب میں لڑکوں کو صرف پڑھتے ہوئے سنکر ہی انھیں یاد فرمالیا کرتے تھا ۔ عمر مبارک پانچ برس کو پہونچی تو والد بزرگوار نے علامہ محمد بن عوض باصہبیؒ کے مکتب میں۲۱؍ ربیع الثانی ۱۲۴۹؁ ھ بروز پنجشنبہ سے باقاعدہ تعلیم کا آغاز فرمایا اور انتہائی کم وقت میں قرآن مجید کے ساتھ ساتھ حبیب احمد بن عمر بن سمیطؒ کی فتح الرحمانی جیسی کتب بھی حفظ کرلیں۔ چار سال مکتب میں تعلیم مکمل کرنے کے بعد آپؒ کا یہ حال تھا کہ صرف و نحو ، ادب و دینیات کی تقریباً ہر درسی کتاب حفظ ہوچکی تھی جس پر والد محترم علامہ حبیب حسین بن احمد العیدروسؒ نے ایک تقریب کا انعقاد فرمایا جس میں یمن کے اکابر علماء ، صوفیاء و مشاہیر جمع تھے جس کی صدارت قطب وقت حبیب ابوبکر بن عبداﷲ العطاسؒ نے فرمائی اور حبیب عیدروسؒ کیلئے علم و فن اور ترقیٔ مدارج کی دعا فرمائی اور تمام صوفیاء و اولیائے کرام نے بالخصوص غوث الوقت حسن بن صالح ؒ اور علامہ عمر بن زین بن سمیطؓ نے اپنے خاص اوراد اور طریقوں کی اجازت عطا فرمائی اور تمام کی موجودگی ہی میں جد امجد قطب الزمان محی النفوس حبیب عبداﷲ العیدروسؒ صاحبِ سلسلۂ عیدروسیہ کا خرقۂ مبارکہ حبیب عیدروسؒ کو پہنایا گیا ۔ بعد ازاں مزید حصول علم کے لئے آپؒ کو بلادِ شام ، عراق ، مکۃ المکرمہ ، مدینۃ المنورہ جیسے بلادِ علم روانہ کیا گیا اور ہرجگہ دو دو سال آپؒ زیرتعلیم رہے اور اپنے وطن عالمِ کامل کی حیثیت سے واپس آئے۔ حبیب عیدروسؒ کی تعلیم روحانی میں بھی آپؒ کے والد محترم نے کوئی کسر نہ چھوڑی اور خود آپؒ کے والد گرامی نے کتبِ تصوف کی سبقاً تعلیم دی، بعد ازاں آپ ؒ کو اکابر اصفیاء نے بھی علوم صدر سے نوازا ۔ آپؒ دن بھر لوگوں کے مسائل سنتے ، ان کا حل عنایت فرماتے، ساتھ ہی تدریس و افتاء کی عظیم ترین ذمہ داریاں نبھاتے اور رات کو مکان سے دور وادیوں میں تشریف لے جاتے اور آہ و بکاء و خشیت الٰہی میں مشغول ہوجاتے ۔ رات کا ایک حصہ مریدین اور متعلقین کو امام غزالیؒ کی کتب خصوصاً احیاء العلوم کا درس دیا کرتے۔ جب والد ماجد نے محسوس کیا کہ آپؒ ہرطرح سے کامل ہوچکے ہیں تب آپؒ کو تمام اجداد کی مزارات پر حاضری اور ان کے اسرار و انوار کی آخری مہر لگانے لے گئے ۔والدمحترم کی وفات کے بعد کچھ عرصہ یمن میں مقیم رہے پھر دینِ متین کی خدمت و تبلیغ کی غرض سے ہندوستان تشریف لائے اور کئی شہروں کا سفر کرتے ہوئے حیدرآباد تشریف لائے ، یہاں آپؒ کی ملاقات حضرت سعداﷲ شاہ نقشبندیؒ سے ہوئی ، جنھوں نے حبیب عیدروسؒ سے فرمایا کہ مجھے آپؒ کی آمد کی خبر عالم رویا میں حضور اکرم ﷺ نے دی اور فرمایا کہ میرا بیٹا حیدرآباد آرہا ہے اس کا خیال رکھنا پس سعداﷲ شاہ صاحبؒ نے سلسلۂ نقشبندیہ کی خلافت و اجازت عطا فرمائی ۔ ابتدائً حبیب عیدروسؒ مقام مغل پورہ میں سکونت پذیر ہوئے بعد میں آپ نے اقبال مرحوم کی دیوڑھی کی قریب ایک مکان خریدلیا جس میں ہر جمعرات حبیب عیدروسؒ حلقۂ ذکر منعقد کرتے جو آج بھی جاری ہے ۔ حبیب عیدروسؒ نے بے شمار کتابیں تصنیف فرمائی ۔ آپؒ کی تصنیفات میں چند آئمہ حدیث کی کتب کی مختصر شروحات ، رواتب و اذکار پرمحمول کتب ، مشائخ سلسلہ عیدروسیہ کے مناقب و اقوال اور تعلیمات پر شمائلِ مصطفی ﷺ اور سیرت و مدحت پر اور دیگر مختلف مضامین پر مشتمل ہیں۔ قطب الاقطاب حبیب عیدروسؒ کی عمر مبارک طویل رہی ۔ آپ نے اس عالم فانی سے بروز دوشنبہ ۱۳؍ ربیع الثانی ۱۳۴۶؁ھ کو عالم جاودانی کی طرف کوچ کیا۔ اناﷲ و انا الیہ راجعون
اعلحضرت میر عثمان علی خانؒ کے فرمان کے مطابق درگاہ خطۂ صالحین نامپلی میں آپؒ کی تدفین عمل میں آئی جو آج تک مرجع خلائق ہے ۔آپؒ کا ۹۵ واں عرس شریف اس بار ۱۳ ربیع الثانی ۱۴۴۱؁ھ مطابق ۱۱؍ ڈسمبر ۲۰۱۹؁ء کو عظیم الشان پیمانے پر منایا جائے گا ۔