شانِ پیرانِ پیر کیا کہنا

   

محمد قیام الدین انصاری کوثر

حضرت شیخ سید عبد القادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ ایک زبردست بزرگ گزرے ہیں۔ آپ جیلان میں ۴۷۰ ھ کو پیدا ہوئے، جو ملک ایران میں واقع ہے۔ آپ کی تعلیمات سے اشاعت اسلام میں مدد ملی اور آپ کے مواعظ حسنہ اور سلسلہ رشد و ہدایت نے دنیائے اسلام میں زبردست تہلکہ مچادیا تھا۔ آپ کے خطبات اور مواعظ حسنہ، جو ’’فتح الربانی‘‘ سے موسوم ہیں، ان میں حقائق امروز اور عمدہ و دلنشین نصیحتیں ہیں، جو زندگیوں میں انقلاب برپا کرتی ہیں۔ گویا عبرت و موعظت کے وہ ایسے معطر پھول ہیں، جن کی مسحور کن خوشبو سے روح کے گلشن میں نئی اور تروتازہ بہاریں آسکتی ہیں۔ قرآن مجید اور احادیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی بنیادوں پر آپ نے اسلام کی تبلیغ و اشاعت کے لئے خود کو وقف کردیا تھا۔ آپ نے تصوف اور سلوک کے آداب حضرت ابوالخیر محمد بن مسلم رحمۃ اللہ علیہ سے حاصل کئے۔ ایک قابل لحاظ مدت گزارنے کے بعد آپ کو خرقۂ جانشینی حضرت ابوسعید المبارک رحمۃ اللہ علیہ کے دست مبارک سے ملا، جو فقہ حنبلی کے ایک ممتاز رہنما سمجھے جاتے ہیں اور بغداد میں باب الازواج کے قریب آپ کی دینی درسگاہ قائم تھی۔آپ جس عہد میں پیدا ہوئے، وہ ایک آزمائشی دَور تھا۔ مختلف مکاتب خیال کے لوگ تھے، بعض کے دماغوں پر فلسفۂ یونان کی عظمت چھائی ہوئی تھی، بعض صرف شریعت اسلامی کی ظاہریت کے دلدادہ تھے، جو ظاہر پرست اور خشک قسم کے سمجھے جاتے تھے۔ بعض لوگ وہ تھے، جو حسن ظن ہی کو اپنی نجات کا ذریعہ سمجھتے تھے۔ آپ کو ان تمام مختلف الخیال لوگوں سے نبرد آزما ہونا پڑا۔ آپ نے اپنی حکمت عملی کے ذریعہ صرف قرآن پاک اور احادیث کی بنیاد پر ان غلط طرز فکر کے لوگوں کو راستی کی طرف موڑنے میں کامیابی حاصل کی۔آپ کے طرز تخاطب کو لوگوں نے بے حد پسند کیا، اس لئے کہ آپ کے مواعظ حسنہ میں صداقت کی روشنی تھی، اس طرح رفتہ رفتہ آپ کے مواعظ میں شریعت پورے آب و تاب کے ساتھ نمایاں ہونے لگی۔حضرت پیرانِ پیر رحمۃ اللہ علیہ اپنے وعظ کی مجلسوں میں اکثر فرمایا کرتے کہ ’’علم بزرگوں کی زبان سے سن کر آتا ہے‘‘۔ آپ کی شان ہی نرالی تھی اور کیوں نہ ہو، آپ تو پیروں کے پیر ہیں۔ ان نیک بندوں کو اللہ تعالیٰ نے اپنا ولی (اولیاء اللہ) بنایا ہے۔سرکار دوعالم ﷺ کا ارشاد مبارک ہے کہ ’’دِلوں پر بھی زنگ آجاتا ہے‘‘۔ اگر اس زنگ کو دُور کرنا ہو تو قرآن مجید کی تلاوت کرتے رہنا، موت کو کثرت سے یاد کرنا اور بزرگان دین کی مجالس میں شرکت کرنا چاہئے۔ حضرت پیرانِ پیر کے ارشادات گرامی میں سے ایک یہ ہے کہ ’’اللہ تعالیٰ سے صحبت رکھو، اگر اللہ سے صحبت اختیار کرنے پر قادر نہ ہو تو پھر اس کی صحبت اختیار کرو، جو اللہ کی صحبت میں رہتا ہے، یہاں تک کہ تم کو بھی اللہ عزوجل کی وہ صحبت نصیب ہو جائے جو ان کو نصیب ہے‘‘۔اولیاء اللہ اور صوفیہ کرام کی زندگی ہمارے لئے قابل تقلید نمونہ ہے۔
صوفیۂ کرام اور اولیاء عظام نے لوگوں کو اپنی روحانی قوتوں اور بلند کردار سے اپنا گرویدہ بنایا، جس کے نتیجے میں وہ حکمرانوں سے زیادہ طاقتور اور ہردلعزیز بن گئے۔ تاریکیوں اور قعرمذلت میں ڈوبی ہوئی مخلوق کو روشنی کا راستہ دکھایا اور اپنی ساری عمر تبلیغ اسلام کے لئے وقف کردی۔ حضرت پیرانِ پیر رحمۃ اللہ علیہ نے چالیس برس دعوت و ارشاد میں گزارکر ماہ ربیع الثانی ۵۶۱ھ میں واصل بحق ہوئے۔