شہادت حضرت سیدنا علی مرتضیٰ ؄

   

محترمہ ریحانہ طارق

ولادت: ۱۳؍رجب المرجب بعد عام الفیل
شہادت: ۲۰؍رمضان المبارک ۴۰ہجری
حضرت سیدنا علی مرتضیٰ کرم اللہ وجہہ کا اسم گرامی علی، مشہور القاب حیدر، مرتضی اور اسد، کنیت ابوالحسن اور ابو تراب تھی۔ آپ ۱۳؍ رجب المرجب کو بعثت نبوی سے دس سال اور ہجرت نبوی سے ۲۳ سال قبل جمعہ المبارک کے دن مکہ مکرمہ میں پیدا ہوئے۔ حسب و نسب کے لئے اتنا ہی لکھنا کافی ہے کہ آپ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے حقیقی چچا جناب ابوطالب کے فرزند تھے۔
حضرت علی مرتضی صرف ’’ابن عم مصطفے‘‘ ہی نہیں تھے، بلکہ آپ کے مواخاتی بھائی بھی تھے اور حضور کی لخت جگر حضرت سیدہ فاطمہ زہرا رضی اللہ عنہا کے شوہر بھی تھے۔ آپ کے والد کی وفات کے بعد آ پ کو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی کفالت میں لے لیا۔ اس وقت آپ کی عمر چار پانچ سال بتائی جاتی ہے، یعنی آپ نے آغوش نبوت میں پرورش و تربیت پائی۔ بعثت نبوی کے بعد جن چار نفوس قدسی کو سب سے پہلے اسلام قبول کرنے کا شرف حاصل ہوا، ان میں سے ایک حضرت علی بھی تھے۔
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ۳۹ یا ۴۰ خاندان بنوہاشم کے افراد کو کھانے پر مدعو کیا۔ جب سب لوگ کھانے سے فارغ ہو چکے تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے کھڑے ہوکر ایک تقریر کی، جس میں فرمایا کہ میں آپ کو ایک ایسی بات کی طرف دعوت دیتا ہوں، جو دنیوی اور اخروی فلاح کی کفیل ہے اور میں نہیں جانتا کہ عرب بھر میں کوئی شخص اپنی قوم کے لئے ایسا بیش بہا تحفہ لایا ہو۔ آپ میں سے کون میری دعوت قبول کرتا ہے اور میرا بھائی اور ساتھی بنتا ہے۔
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ تقریر سن کر سب لوگ خاموش رہے، لیکن حضرت علی مرتضی کرم اللہ وجہہ نے اٹھ کر عرض کیا ’’اگرچہ میری عمر کم ہے، تاہم میں آپ کا ساتھ دوں گا‘‘۔ حضرت علی کی یہ بات سن کر دوسرے لوگ ہنسنے لگے۔ اس وقت آپ کی عمر مبارک صرف ۱۳ برس تھی۔ (تفسیر ابن کثیر)
حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے جو پیمان وفا باندھا، اسے اپنے عمل سے سچ کردکھایا اور تنگی، آسانی، دکھ سکھ، ہر حال میں فداکاری کا ایمان افروز نمونہ پیش کیا۔
سنہ ۲ ہجری میں حضور سرور عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی پیاری بیٹی حضرت سیدہ فاطمہ زہرا رضی اللہ عنہا کا نکاح حضرت علی سے کردیا اور دونوں کے لئے خیر و برکت کی دعاء فرمائی۔ چند ماہ بعد حضرت سیدہ فاطمہ رخصت ہوکر حضرت علی کے گھر گئیں تو اس موقع پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت فاطمہ زہرا سے مخاطب ہوکر فرمایا ’’میں نے تمہاری شادی خاندان کے بہترین شخص سے کی ہے‘‘۔
ہجرت نبوی کے موقع پر حضرت علی کرم اللہ وجہہ کو یہ لازوال شرف حاصل ہوا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے (اپنی ہجرت کے بعد) آپ کو اہل مکہ کی امانتیں واپس کرنے کی ذمہ داری سپرد فرمائیں اور کاشانۂ اقدس سے نکلتے وقت اپنے بستر پر اپنی سبز موٹی چادر اوڑھاکر لٹا دیا۔ اگرچہ سیدنا علی کرم اللہ وجہہ کسی تامل کے بغیر بخوشی حضور کے بستر مبارک پر لیٹ گئے اور حضور اطمینان سے مشرکین کے سروں پر خاک ڈالتے ہوئے ان کے درمیان سے نکل گئے۔ صبح ہوئی تو کاشانۂ اقدس میں حضرت علی کو پایا تو کفار نے آپ کو گھیر لیا اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے متعلق دریافت کیا، تو آپ نے جواب دیا کہ ’’تم لوگوں نے انھیں نکلنے پر مجبور کیا اور وہ نکل گئے‘‘۔
اس کے کچھ عرصہ بعد آپ بھی حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس مدینہ منورہ چلے گئے اور مسجد نبوی کی تعمیر میں حصہ لیا۔ مسجد کی تعمیر کے بعد حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مجاہدین اور انصاف کے درمیان عقد مواخاۃ قائم کرایا تو حضرت علی کو اپنا مواخاتی بھائی بنایا۔ غزوات کا آغاز ہوا تو ہر معرکہ میں حضرت سیدنا علی مرتضی کرم اللہ وجہہ نے سرفروشی کے جوہر دکھائے۔ آپ جدھر جھک پڑتے، دشمن کی صفیں کائی کی طرح پھٹ کر راستہ دیتی تھیں۔ آپ کی خداداد شجاعت کو دشمن اور دوست بھی تسلیم کرتے ہیں۔ آپ خود فرماتے ہیں کہ ’’میدان رزم میں مجھے پرواہ نہیں ہوتی کہ موت میری طرف آرہی ہے یا میں موت کی طرف جا رہا ہوں‘‘۔
حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جنگ خیبر میں آپ نے قلعۂ خیبر کا دروازہ اٹھا لیا تھا۔ فتح خیبر کے بعد جب اس دروازے کو گھسیٹ کر دوسری جگہ ڈالا گیا تو چالیس افراد، ایک اور روایت کے مطابق ۸۰ افراد مل کر بھی دروازے کو نہ ہلا سکے۔
حضور سرور عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد حضرت سیدنا علی مرتضی کرم اللہ وجہہ انتیس برس حیات رہے۔ اس عرصہ میں آپ کی زندگی میں بہت سے نشیب و فراز آئے، جن کی تفصیل بیان کرنا مشکل ہے۔
۱۷/ رمضان المبارک سنہ ۴۰ ہجری کو علی الصبح حضرت سیدنا علی مرتضی کرم اللہ وجہہ جب بیدار ہوئے تو اپنے صاحبزادے حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ میں نے خواب میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے شکایت کی ہے کہ آپ کی امت نے میرے ساتھ کج روی اختیار کی ہے اور اس نے سخت نزاع برپا کردیا ہے۔ ابھی آپ یہ فرما ہی رہے تھے کہ اتنے میں مؤذن نے اذان دی۔ چنانچہ آپ نماز پڑھانے کے لئے گھر سے روانہ ہوئے۔ راستے میں آپ لوگوں کو نماز کے لئے آواز دے کر جگاتے جاتے تھے کہ اتنے میں عبد الرحمن ابن ملجم سے سامنا ہوا اور اس نے اچانک آپ پر سامنے سے تلوار کا حملہ کیا۔ حملہ اتنا شدید تھا کہ حضرت سیدنا علی مرتضی کرم اللہ وجہہ کی پیشانی مبارک پر گہرا زخم آیا اور تلوار دماغ تک پہنچ گئی۔ آپ نے ابن ملجم کو پکڑ لیا اور فرمایا کہ ’’اگر میں زندہ رہا تو اسے خود سزا دوں گا اور مناسب فیصلہ کروں گا اور اگر جانبر نہ ہو سکا تو اسے قتل کردینا‘‘۔ زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے ۲۰/ رمضان ۴۰ ھ کو آپ نے جام شہادت نوش فرمایا۔ اس طرح آپ خانۂ کعبہ میں پیدا ہوئے اور مسجد میں اپنے رب سے جا ملے۔ جب قاتل نے آپ کو تلوار ماری تو اس وقت آپ نے بلند آواز میں کہا کہ ’’رب کعبہ کی قسم! میں کامیاب ہو گیا‘‘۔