شیشہ و تیشہ

   

ہتک…!
کل قصائی سے کہا اِک مفلسِ بیمار نے
آدھ پاؤ گوشت دیجئے مجھ کو یخنی کے لئے
گْھور کر دیکھا اُسے قصاب نے کچھ اس طرح
جیسے اُس نے چھیچھڑے مانگے ہوں بلی کے لئے
……………………………
بکرے کی فریاد
قربانی سے پہلے ایک بکرے کے تاثرات :
عید الضحٰی پر قریب آئی جو قربانی کی رات
چلتے چلتے ایک بکرا کہہ گیا مجھ سے یہ بات
عید یہ پیغام لے کر آئی ہے، حج کیجئے
آج اپنی خامیوں کو آپ خود جج کیجئے
ذبح کیجئے مجھ کو یوں شانِ مسلمانی کے ساتھ
ذبح ہو جائے نہ خود مقصد بھی قربانی کے ساتھ
مجھ کو قربان کرکے یہ پوچھے نہ آئندہ کوئی
اے عزیزو ! میرے حصے کی کلیجی کیا ہوئی
ایک صاحب گھر میری اِک ران پوری لے گئے
کھال باقی تھی سو اظفر بہرام پوری لے گئے
کتنی بیجا بات ہے میرے خریدارِ عزیز !
ذبح کرکے گوشت کر لیتے ہیں ڈبوں میں فریز
آپ سے یہ ’’دست و پا بستہ ‘‘ گزارش ہے مِری
گوشت جو میرا بچے ، تقسیم کر دیجئے فری
لب پہ قربانی کی نیّت ، دل میں خؤشبوئے کباب
اے میں صدقے ، اس کو قربانی نہیں کہتے جناب
میری قربانی ، وسیلہ ہے اطاعت کے لئے
اس کی شہرت کیوں ہو صرف اپنی اشاعت کیلئے
ایسی قربانی سے کیا خوش ہو گا وہ ربِ جلیل
رسمِ قربانی ہے باقی ، اُٹھ گیا عشق خلیل
گامزن وہ شخص ہے اللہ کے احکام پر
جس نے مجھ کو کر دیا قربان خدا کے نام پر
آپ سے مجھ کو شکایت ہے کہ قربانی کے ساتھ
گوشت کیسا ، پوست پر بھی صاف کردیتے ہیں ہاتھ
میں تو کہتا ہوں کہ قربانی میری انمول ہو
آپ کہتے ہیں کہ بریانی میں بوٹی گول ہو
برف خانوں میں جو میرے گوشت کا اسٹال ہے
یہ تو قربانی نہیں ، میرا استحصال ہے
میرا سر ، میری زبان ، میری کلیجی ، میرے پاؤ
سب غریبوں کو دیدیئے جائیں ،یہی ہے میری رائے
میرا گردہ اس کا حصہ ہے ، جو خود بے گردہ ہو
میرا دل اس کیلئے ہے ، جس کا دل افسردہ ہو
عید کہتی ہے بڑھاؤ حوصلے احباب کے
آپ ’’کھچڑا‘‘ کھا جاتے ہیں ، شکم کو داب کے
فرض قربانی کا مقصد جذبہِ ایثار ہے
آپ کہتے ہیں کہ یہ دنبہ بہت تیار ہے
آپ معدہ کے ڈپو میں عید کا کوٹہ لئے
سوئے صحرا جا رہے ہیں ہاتھ میں لوٹا لئے
غیر اسلامی اگر ہے جو چھری مجھ پہ گری
میری قربانی نہیں ہے یہ ہلاکت ہے میری
مر گیا میں آپ کو کھانے کی آسانی ہوئی
اس کو قربانی کہا جائے ،کیا یہ قربانی ہوئی ؟
…………………………
پھر آپ ہی کا …!
گاہک قصاب سے : ’’بھئی ! قیمہ تیار ہوا ہے کہ نہیں …؟‘‘
قصاب : ’’بس کریم صاحب کی دوچار بوٹیاں کاٹ رہا ہوں ، پھر آپ ہی کا قیمہ بناؤں گا …!!‘‘
صادق شریف ۔ میدک
………………………
دفتری راز…!
٭ ہمارے دفتر میں اہم دفتری کاغذات کو لِیرو لِیر کرنے یعنی ان کو ٹکڑے ٹکڑے کرنیوالی مشین۔ شریڈر بھی ہے۔ تاکہ کوئی دستاویز ردی کی ٹوکری میں صحیح سلامت نہ چلی جائے۔ اور دفتری راز فاش نہ ہوجائے۔
ایک دن ایک نئی لڑکی اس شریڈر کے پاس ایک کاغذ پکڑے کھڑی تھی۔ میں نے اس کو مشین چلانے کا طریقہ زبانی سمجھایا۔ پھر اس کو عملی مشق کرانے کی خاطر کاغذ کو پکڑ کے اس شریڈر میں ڈال دیا۔ لڑکی بڑے غور سے دیکھ رہی تھی اور شاید میری مہارت سے متاثر بھی تھی۔ کچھ دیر بعد پوچھنے لگی کہ اس کی کاپی کہاں سے نکلے گی؟ باس نے کہا تھا کہ یہ بہت ضروری دستاویز ہے اس کی تین چار کاپیاں بنا کے اس کو محفوظ کرلو۔
ابن القمرین ۔ مکتھل
…………………………
بھیجہ نکال …!
٭ ایک گوشت کی دوکان پر مالک (قصاب) نے اپنے ملازم سے کہا : ’’ارے وہ شوکت جلدی جلدی ہاتھ چلا ، وہ نیلی شرٹ والا بچہ بہت دیر سے ٹھہرا ہوا ہے وہ لڑکے کابھیجہ نکال اور وہ برقعہ والی میم صاحبہ ٹھہری ہوئی ہیں ان کا قیمہ بنادے ۔ چاقو تیز ہے کہ نہیں …!‘‘
کنیز آمنہ عظمیٰ ، افتخار علی ۔ گلبرگہ شریف
…………………………