شیشہ و تیشہ

   

حبیب جالبؔ
وطن کا پاس …!
اُصول بیچ کر مسند خریدنے والو
نگاہِ اہل وفا میں بہت حقیر ہو تم
وطن کا پاس تمہیں تھا نہ ہوسکے گا کبھی
کہ اپنی حرص کے بندے ہو بے ضمیر ہو تم
…………………………
وحید واجد ، رائچور
اچھے دِن
مفلسوں کو ڈُبائے اچھے دِن
باقی سب کو تِرائے اچھے دِن
شور بے حد مچائے اچھے دِن
ایک پل بھی نہ آئے اچھے دِن
یاد کرکے خود کو بہلالو
جو بھی ہم نے بِتائے اچھے دِن
خوب خوشحال ہے گِرانی اب
لو گرانی کے آئے اچھے دِن
آدمی کے بڑے بُرے دن ہیں
پاگئے بیل گائے اچھے دِن
جاتے ہیں تو چھوڑیئے حضرت
خواب میں بھی نہ آئے اچھے دِن
مودی صاحب تو لے کے آئے تھے
بولو کس نے چرائے اچھے دِن
وہ بھی کیا دن تھے دورِ شاہی کے
اب کہاں ہیں وہ ہائے اچھے دِن
اشرف المخلوقات کے بدلے
جانور ہی نے پائے اچھے دِن
مودی صاحب نے اپنے بھاشن میں
سب کو اچھا دکھائے اچھے دِن
ایک اک کرکے سالوں بیت گئے
پھر بھی اب تک نہ آئے اچھے دِن
لوگ کہتے ہیں کہ نہیں آکر
سب کو پانی پِلائے اچھے دِن
اچھے دن کے حسین سپنوں نے
مودی جی کو دکھائے اچھے دِن
گرچہ ملنا محال ہے پھر بھی
جی رہے ہیں برائے اچھے دِن
سچ بنائیں ہماری قسمت میں
سب ہے واجدؔ سوائے اچھے دِن
…………………………
’’ہری مرچیں‘‘
٭ آج کل سیاست میں جتنے اتحاد بن رہے ہیں اُن سب کا ایک ہی مقصد ہے : ’’آؤ ہم سب مل کر کھائیں ‘‘
٭ ہماری سیاست کا بھی عجیب حال ہے جو آج اقتدار میں ہے وہ کل جیل میں ہوگا اور جو آج جیل میں ہے وہ کل کرسی پر ہوگا۔
٭ لگتا ہے آئندہ چند سالوں میں بیوٹی پارلرز کی تعداد پرائیویٹ اسکولوں سے بڑھ جائے گی …!
٭ عورت مرد کو بیوقوف بناکر بڑی خوش ہوتی ہے حالانکہ مرد جان بوجھ کر بیوقوف بنتا ہے ۔
محمد امتیاز علی نصرتؔ ۔ پداپلی ، کریمنگر
…………………………
عقد ثانی
٭ ایک جوڑا ہنسی خوشی سعودی عرب میں رہ رہا تھا۔ ایک دِن جب خاوند کْچھ زیادہ بن ٹھن کر آفس جانے لگا تو اُس کی بیوی نے مشکُوک نگاہوں سے پہلے اُسے دیکھا اور پھر پوچھا کہ کہاں اتنا تیار ہو کر جا رہے ہو؟
خاوند نے جواب میں کہا کہ آج میں ’’عَقدِ ثانی‘‘ کرنے جا رہاہوں۔
اور یہ کہہ کر گھر سے چلا گیا۔ اب بیوی نے تو یہ سُنتے ہی رونا دھونا شروع کردیا اور سعودیہ میں اپنے بھائیوں اور برصغیر میں موجود تمام میکے اور سسرال والوں کو بھی فون کردیئے۔ شام میں جب خاوند گھر لوٹا تو گھر میدانِ جنگ کا سماں پیش کررہا تھا۔
بیوی نے سر پر ایک دوپٹہ باندھا ہوا تھا اور مشتعل نگاہوں سے دروازے کی طرف دیکھتے ہوے غُصے سے بولی ’’کر آئے ’عقدِ ثانی‘ کہاں ہے وہ کلموہی حسینہ؟؟
میں اُس سے ذرا یہ تو پوچھوں کہ تْجھے صِرف میرا ہی خاوند نظر آیا تھا شادی کے لئے…؟؟؟‘‘۔
خاوند نے جب یہ حال دیکھا تو اسکا ہنسی سے بْرا حال ہو گیا، اُس نے کہا اے نیک بخت تیرے علاوہ اگر کِسی اور کا دِل میں خیال بھی آئے تو جو چاہے سزا دینا۔ یہاں سعودیہ میں جاب کنٹریکٹ کے معاہدے کو ہر سال ری نیو کروانا پڑتا ہے جس کو برصغیر کے ملازم پیشہ باشندے ’’عقدِ ثانی‘‘ کہتے ہیں۔
حبیب حمزہ العیدروس۔ ممتاز باغ
…………………………