شیشہ و تیشہ

   

سرفراز شاہدؔ
مقبول ڈپلومیٹ…!!
زمانے میں وہی مقبول ’’ ڈپلومیٹ ‘‘ ہوتا ہے
جو منہ سے ’’ دِس ‘‘ کہے تو اس کا مطلب ’’دَیٹ‘‘ ہوتا ہے
عوام الناس کو ایسے دبوچا ہے گرانی نے
کہ جیسے ’’ کیٹ ‘‘ کے پنجے میں کوئی
’’ رَیٹ ‘‘ ہوتا ہے
فراغت ہی نہیں ملتی بڑے صاحب کو میٹنگ سے
وہ میٹینگ جس کا ایجنڈا فقط
’’ چٹ چیٹ ‘‘ ہوتا ہے
کرکٹر جلد بازی میں لگاتا ہے اگر چھکا
زمیں پر گیند ہوتی ہے فضا میں ’’ بیٹ ‘‘ ہوتا ہے
ہمیں تو سادگی کا درس دیتا ہے وہی
جس کے بدن پر بیش قیمت سوٹ،
سر پر ’’ ہیٹ ‘‘ ہوتا ہے
یہی دیکھا ہے شاہدؔتیسری دنیا کے ملکوں میں
بچاری قوم پتلی اور لیڈر ’’ فَیٹ ‘‘ ہوتا ہے
………………………
تاکہ …!!
شوہر کھانا کھاتے وقت بیوی سے : یہ جو سبزی بنائے اس کا نام کیا ہے ؟
بیوی : کیوں کس لئے پوچھ رہے ہیں…؟
شوہر : تاکہ قبر میں فرشتوں کو بتاسکوں کہ کیا کھا کے مرا تھا …!!
………………………
اسی لئے …!!
شوہر : کیا واہیات سالن ہے …!!
بیوی : میں جو بھی چیز بناتی ہوں آپ اس میں عجیب نکالتے ہیں ۔ ایک وہ میرے سابق مرحوم شوہر تھے جو میری بنائی ہوئی ہرچیز خوشی خوشی کھالیتے تھے …!!
شوہر : اسی لئے تو وہ محروم ہوگئے …!!
مظہر قادری۔حیدرآباد
………………………
میرا بچہ …!
٭ ایک خاتون نے اپنی پڑوسن سے کہا کیا یہ گلی اتنی گندی ہے کہ بچے جب کھیل کر آتے ہیں تو کیچڑ اور مٹی سے لت پت ہوتے ہیں؟
پڑوسن نے کہا ’’ہاں بہن ابھی کل کی بات ہے مجھے پورے بیس بچوں کے منہ دھلانے پڑے تب کہیں جا کر پتا چلا ، ان میں سے میرا بچہ کون سا ہے…! ‘‘۔
ابن القمرین ۔ مکتھل
…………………………
حیرت ہے !
٭ میاں اور بیوی نے شادی کی 5ویں سالگرہ پر سوچا کہ یونیورسٹی کے اسی پارک میں چلیں جہاں وہ پہلی بار ملے تھے۔ چنانچہ شادی کی سالگرہ کے دن دونوں وہاں پہنچے اور پارک میں ایک درخت کے نیچے بنچ پر بیٹھ گئے۔انکے قریب ہی کچھ دور ایک اور بنچ پر ایک عورت ہاتھ میں شراب کی بوتل لئے، نشہ میں غرق بیٹھی تھی۔
میاں نے اس عورت کو غور سے دیکھا۔ اور اپنی بیوی سے کہنے لگا: ’’ ڈارلنگ ! جانتی ہو۔ یہ میری کلاس فیلو اور سابقہ گرل فرینڈ ہے۔ جب سے میںنے اسے چھوڑ کر تمھارے ساتھ شادی کی ہے۔ تب سے یہ اسی پارک میںروزانہ شراب کی بوتل لیے آتی ہے اور یونہی نشے میں غرق رہتی ہے ‘‘۔
’’اچھا ‘‘ بیوی نے حیرانگی سے کہا : ’’حیرت ہے کہ کوئی اتنے برس تک بھی خوشی منا سکتا ہے!‘‘
حبیب عکرمہ العیدروس ۔ ممتاز باغ
……………………………
زندگی سے موت بھلی …!
٭ ایک مشہور ایکٹریس کی بلی نے باورچی خانے میں ایک چوہے کا گھیراؤ کیا ، وہ اُس پر حملہ کرکے اُسے ہڑپ کرنا چاہتی تھی کہ چوہے نے آنسو بھری نظروں سے ایکٹریس کی طرف دیکھا اور بولا ’’اگر تمہاری بلی میری جان بخش دے تو میں تمہاری تین خواہشیں پوری کرسکتا ہوں ! ‘‘۔
’’اچھی بات ! ‘‘ ایکٹریس نے جواب دیا ۔ میری پہلی خواہش یہ ہیکہ مجھے ایک لاکھ ڈالر فوراً مل جائیں ! …
یہ رہے ، چوہے نے چھت کی طرف اشارہ کیا اور نوٹوں کی بارش ہونے لگی …!
’’ میری دوسری خواہش یہ ہے کہ میری خوبصورتی اور جوانی ہمیشہ برقرار رہے‘‘ ۔
چوہے نے کہا ’’تمہاری یہ آرزو بھی پوری ہوگی…!‘‘۔ اب میری آخری خواہش یہ ہے کہ ’’تم ایک امیر نوجوان اور حسین شہزادے بن کر مجھ سے شادی کرلو ‘‘۔
یہ سُن کر چوہے نے گھوم کر بلی کی طرف دیکھا اور کہا ’’ تو مجھے کھاتی کیوں نہیں ! کیا تو بھی چاہتی ہے میں اپنی زندگی برباد کرلوں ؟‘‘
ایم اے وحید رومانی ۔ نظام آباد
………………………