شیشہ و تیشہ

   

فرید سحرؔ
اضطراب…!
حالات اپنے دیش کے سنگین ہیں بہت
قاتل کے ہاتھ خون سے رنگین ہیں بہت
بچّے ، جوان ، بوڑھے ہیں سب مضطرب سحرؔ
انساں تو کیا حیوان بھی غمگین ہیں بہت
…………………………
سرفراز شاہد
ڈاج محل
(ساحر لدھیانوی سے معذرت کے ساتھ)
ڈاج کے نام سے جاناں تجھے اُلفت ہی سہی
ڈاج ہوٹل سے تجھے خاص عقیدت ہی سہی
اُس کی چائے سے، چکن سوپ سے رغبت ہی سہی
ڈاج کرنا بھی ازل سے تیری عادت ہی سہی
تو مری جان کہیں اور ملا کر مجھ سے
قیس و لیلیٰ بھی تو کرتے تھے محبت لیکن
عشق بازی کے لئے دشت کو اپناتے تھے
ہم ہی احمق ہیں جو ہوٹل میں چلے آتے ہیں
وہ سمجھ دار تھے جنگل کو نکل جاتے تھے
تو مری جان کہیں اور ملا کر مجھ سے
کاش اس مرمریں ہوٹل کے بڑے مطبخ میں
تو نے پکتے ہوئے کھانوں کو تو دیکھا ہوتا
وہ جو مُردار کے قیمے سے بھرے جاتے ہیں
کاش اُن روغنی نانوں کو تو دیکھا ہوتا
تو مری جان کہیں اور ملا کر مجھ سے
جاناں! روزانہ ترے لنچ کا بل کیسے دوں
میں کوئی سیٹھ نہیں، کوئی اسمگلر بھی نہیں
مجھ کو ہوتی نہیں اوپر کی کمائی ہرگز
میں کسی دفتر مخصوص کا افسر بھی نہیں
تو مری جان کہیں اور ملا کر مجھ سے
گھاگ بیرے نے دکھا کر بڑا مہنگا ’’مینو‘‘
’’ہم غریبوں کی محبت کا اُڑایا ہے مذاق‘‘
عشق ہے مجھ سے تو، کافی ہی کو کافی سمجھو
میں منگا سکتا نہیں مرغ مسلم کا طباق
تو مری جان کہیں اور ملا کر مجھ سے
…………………………
مجھے پتہ ہے !
٭ ایک شادی شدہ عورت نے نجومی کو ہاتھ دکھایا تو وہ دکھی لہجے میں بولا :’’مجھے معاف کیجئے ! آپ تین ماہ بعد بیوہ ہو جائیں گی!!‘‘
نجومی کی بات سن کر عورت نے کسی ہچکچاہٹ کے بغیر کہا ’’یہ تو مجھے بھی پتہ ہے ، تم یہ بتاؤ میں پکڑی جاؤں گی یا نہیں ؟!!‘‘
ابن القمرین ۔ مکتھل
…………………………
پائلیٹ …!
٭ ایک عورت نوکری کیلئے انٹرویو دینے گئی۔ انٹرویو لینے والے نے پوچھا : ’’اب آپ کیا کررہی ہیں ؟ ‘‘
عورت بولی : ’’میں پائلیٹہوں! ‘‘۔
انٹرویو لینے والا بڑی حیرت سے اُسے دیکھتے ہوئے بولا : اب آپ کیا اُڑا رہی ہیں ؟
عورت : میرے شوہر کے پیسے !
ڈاکٹر گوپال کوہیرکر
…………………………
مرغ کے ساتھ !
٭ ایک دوست: ’’میں روزانہ مرغ کے ساتھ روٹی کھاتا ہوں‘‘۔
دوسرا دوست: ’’اس مہنگائی کے دور میں، وہ کیسے؟‘‘
پہلا دوست: ’’ایک لقمہ میں لیتا ہوں، دوسرا مرغ کو دیتا ہوں‘‘۔
حبیب محمد العطاس ۔ گرمٹکال
…………………………
اتفاق سے …!
پہلا دوست : اگر اتفاق سے تم جنگل میں اکیلے جارہے ہو اور سامنے سے شیر آجائے تو تم ایسے میں کیا کرو گے ؟
دوسرا دوست : مجھے کرنے کا کیاہے جو بھی کرنا ہے شیر خود ہی کرلے گا …!
مظہر قادری ۔ حیدرآباد
…………………………
صرف نام !
٭ ایک دانشور کے ساتھ ایک شام منائی گئی ۔ تقریب کے آخر میں ان کو بتایا گیا کہ لوگ ان سے کچھ سوالات کرنا چاہتے ہیں ۔ انھوں نے کہا۔ ’’لوگ کاغذ پر لکھ کر مجھ سے سوال کریں ، میں مائیک میں جواب دیتا ہوں‘‘۔ کئی سوالوں کے بعد ایک پرچی اُن کے ہاتھ میں آئی جس پر صرف ایک لفظ ’’گدھا‘‘ لکھا تھا۔
دانشور تھوڑی دیر حیران رہ گئے پھر سمجھ گئے کہ معاملہ کیا ہے ۔ اِس کے بعد انھوں نے کہا : ’’اب میرے پاس ایک ایسی پرچی آئی ہے جس میں کسی صاحب نے اپنا نام تو لکھ دیا ہے لیکن سوال لکھنا بھول گئے ہیں‘‘۔
نظیر سہروردی ۔ راجیونگر