شیشہ و تیشہ

   

انورؔ مسعود
نقشِ فریادی
طرزِ لباسِ تازہ ہے اِک شکلِ احتجاج
فیشن کے اہتمام سے کیا کچھ عیاں نہیں
یہ لڑکیوں کو شکوہ ہے کیوں لڑکیاں ہیں ہم
لڑکوں کو یہ گلہ ہے وہ کیوں لڑکیاں نہیں
………………………………………………………………
محمد ایوب خان جھاپڑؔ(کویت)
کیوں …؟
ہر طرف آپ کے فسانے کیوں
آپ اتنے بھی دیڑھ شانے کیوں
جھانکنا گھر سے چھت پہ اُتر آنا
خود نمائی کے یہ بہانے کیوں
کل جنہیں زعم تھا بہت خود پہ
پٹ گئے آج وہ نجانے کیوں
یہ زمیں ہے زمیں محبت کی
اس پہ نفرت کے شامیانے کیوں
ہم کھٹکتے ہیں سب کی نظروں میں
کیا پتہ کیا خبر نجانے کیوں
میں نے سنجیدہ بات کی تم سے
لگ گئے آپ ہنہنانے کیوں
اس نے ویسے ہی ہنس کے دیکھا تھا
آپ جھاپڑؔ ہوئے دِوانے کیوں
………………………
موبائیل فون پر باتیں …!
٭ ایک سروے کے مطابق حال ہی میں اس بات کا اعداد و شمار نکالا گیا کہ کون ’’کس سے ، کتنی دیر ‘‘ موبائیل فون پر باتیں کرتا ہے :
لڑکا لڑکے سے
:
00:00:55
لڑکا باس سے
:
00:01:00
لڑکا ماں سے
:
00:00:30
لڑکا باپ سے
:
00:00:20
لڑکا لڑکی سے
:
لامحدود
لڑکی لڑکی سے
:
24 x 7
لڑکی لڑکے سے
:
00:00:01
شوہر بیوی سے
:
00:00:07
بیوی شوہر سے
:
15 مسڈکال
مبشر سید ۔ چنچلگوڑہ
…………………………
پریشان …!
٭ ایک شخص ریل گاڑی میں سفر کررہا تھا ۔ دوران سفر اپنے ساتھ بیٹھے نوجوان مسافر سے وقت کاٹنے کیلئے باتیں کرنے لگا۔ گفتگو کے دوران اُس نے پوچھا :
’’کیا تمہاری شادی ہوگئی ؟‘‘
وہ نوجوان شخص بولا: ’’نہیں … ویسے بھی میں بہت پریشان اور دُکھی ہوں، میں اور زیادہ پریشان اور دکھی نہیں ہونا چاہتا …!!
ڈاکٹر گوپال کوہیرکر۔ نظام آباد
…………………………
شریف بندہ…!
٭ ایک دوست نے اپنے خاص دوست سے دوران گفتگو کہا کہ ایک شریف بندے کو کیا چاہیے ہوتا ہے بس یہی
ایک بیوی جو پیار دے …!
ایک بیوی جو اچھا کھانا بنائے …!
ایک بیوی جو اس کی خدمت کرے…!
ایک بیوی جو فضول خرچ نا ہو …!
اور سب میں بڑھکر یہ چار بیویاں مل جل کر رہیں
ابن القمرین ۔ مکتھل
…………………………
سمجھ کا فرق …!!
٭ ایک ڈاکٹر نے اپنے پروفیسر دوست سے کہا کہ کل میں آؤٹ آف اسٹیشن جارہا ہوں ، آپ ایک مہینہ سے میرے ہاں مقیم ہیں برائے کرم اپنے گھر چلے جائیں ۔
یہ سُن کر غائب دماغ پروفیسر نے آنکھیں پھاڑتے ہوئے کہا ’’میں سمجھ رہا تھا کہ تم ایک مہینہ سے میرے گھر میں مہمان ہو …!!‘‘
مظہر قادری ۔ حیدرآباد
…………………………
نہیں ! نہیں !!
٭ ایک لکھ پتی کی بیوی نے اپنے شوہر کو مخاطب کرتے ہوئے کہا : ’’یہ پھٹا ہوا کوٹ اب تو نوکر کو دیدو؟
شوہر نے اُسے روکتے ہوئے کہا : ’’نہیں ! نہیں ! یہ کوٹ تو انکم ٹیکس کے دفتر پر پہن کر جانے کیلئے ہے ۔
رضیہ حسین ۔ سنتوش واڑی ، گلبرگہ
…………………………
تم ہی سوچو…!
شوہر (غصے سے ) : بیگم ! تم ابھی اور کتنی جوڑی چپل کی دیکھو گی ۔ ایک گھنٹہ ہورہا ہے ایک جوڑی چپل خریدنے میں ۔ آخر کیسا چپل خریدنا چاہ رہی ہو ، ہلکا یا وزن دار …؟
بیوی (غصے سے ) : تم ہی سوچو کونسا چپل اچھا رہے گا تمہاری صحت کے لئے …؟
سالم جابری ۔ آرمور
…………………………