شیشہ و تیشہ

   

حامد بھنسالوی
آتا کہاں سے …!؟
حاسد لگے ہوئے ہیں اسی اک سراغ میں
آتا کہاں سے تیل ہے اس کے چراغ میں
دو چار شعر پر انہیں کچھ داد کیا ملی
وہ عیب ڈھونڈنے لگے غالبؔ میں داغؔ میں
…………………………
یوسف ؔنرمل
شمع امن کی …!
نفرتیں ذہنوں میں پلنے لگ گئیں
زیست کی قدریں بدلنے لگ گئیں
کرگئے ہیں پار اندھیرے شب کی حد
بستیاں اب دن میں جلنے لگ گئیں
ہم نے کی روشن جو شمع امن کی
آندھیاں دہشت کی چلنے لگ گئیں
بکھرے تِنکو ! متحد ہوجاؤ بھی
اب ہوائیں تیز چلنے لگ گئیں
مُٹھی بھر چاول جو صدقہ کردیا
ہاں ! بلائیں ساری ٹلنے لگ گئیں
کیوں رقابت کی یہ خستہ وادیاں
پیار کی شبنم سے جلنے لگ گئیں
ہر جگہ ناہل ہیں بیٹھے ہوئے
گویا جعلی نوٹیں چلنے لگ گئیں
آج یوسفؔ زندگی کی تلخیاں
شعر کے سانچے میں ڈھلنے لگ گئیں
…………………………
اسی بات کی تو فکر ہے …!
٭ دو دوست دفتر میں بیٹھے کام کررہے تھے، اتنے میں موسم نے انگڑائی لی اور بارش ہوگئی ۔ ایک نے اُٹھ کر ٹہلنا شروع کردیا اور بے چین سا دکھائی دینے لگا ۔
دوسرے نے پوچھا ’’خیر تو ہے ؟‘‘
پہلا کہنے لگا ’’یار تمہاری بھابھی بازار گئی ہوئی ہے اور بارش شروع ہوگئی ‘‘۔
’’تو اس میں فکر کرنے والی کونسی بات ہے ؟ وہ کوئی بچی تھوڑی ہی ہے ؟ بارش سے بچنے کیلئے کسی شاپنگ مال میں چلی گئی ہوں گی‘‘۔
پہلے دوست نے جواب دیا : ’’اسی بات کی تو فکر ہے ‘‘ ۔
مبشرسید۔ چنچلگوڑہ
…………………………
تمہیں مرنے کی کیا جلدی تھی …!
٭ قبرستان میں ایک صاحب ایک قبر پر پہنچے اور قبر سے لپٹ کر دھاڑیں مار مار کر رونا شروع کردیا۔ ساتھ ہی ساتھ وہ یہ جملہ کہتے جاتے:’’تمھیں مرنے کی کیا جلدی تھی… تمھیں مرنے کی کیا جلدی تھی… تمھیں مرنے کی کیا جلدی تھی‘‘۔ انکی آہ و بکا سن کر دیگر لوگ متوجہ ہوگئے اور انکے غم میں شریک ہونے کے لئے ان کے قریب پہنچے۔وہ صاحب ابھی بھی قبر کی مٹی اٹھا کر آنکھوں سے لگاتے۔ اپنے سر میں ڈالتے۔ سر پیٹتے اور روتے چلاّتے یہی کہتے جاتے۔
’’تمھیں مرنے کی کیا جلدی تھی … تمھیں مرنے کی کیا جلدی تھی… ‘‘
لوگوں نے انہیں تسلی دیتے ہوئے کہا:’’ دیکھیے جناب! مرنے والوں کا سب کو دکھ ہوتاہے۔ لیکن یہ آخر کون ہے جس کے غم میں آپ یوں نڈھال ہوئے جارہے ہیں؟ آپکے بیٹے، والد، بہن بھائی یا … کوئی اور…؟؟؟‘‘
ان صاحب نے ہچکیوں کے درمیاں لوگوں کو بتایا: ’’یہ میری بیوی کے پہلے شوہر کی قبر ہے ‘‘۔
ابن القمرین ۔ مکتھل
…………………………
مبادلہ !
٭ ایک راستے سے دو آدمی گذر رہے تھے ، جھٹ سے ایک آدمی نے دوسرے سے کہا : ’’بھائی صاحب ! مجھے 100 روپئے مبادلہ چاہئے ‘‘ ۔ دوسرے شخص نے حیرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا : ’’میں آپ کو جانتا نہیں کیسے 100 روپئے مبادلہ دیدوں ؟
پہلے والے نے کہا کہ آپ مجھ کو جانتے نہیں اس لئے مانگ رہا ہوں ، جاننے والا کوئی نہیں دے رہا ہے ؟
حفصہ ، آفرین ، وسیم ۔ گلبرگہ شریف
…………………………
کب ضرورت پڑ جائے …!
بیوی شوہر سے : ہمارے پڑؤس میں ایک ڈاکٹر صاحب رہنے کیلئے آئے ہوئے ہیں ، ہمیں اُن سے دوستی کرلینی چاہئے ، پتہ نہیںکب ہمیں اُن کی ضرورت پڑجائے ؟
شوہر : ہمیں اس زندگی میں اُن کی ضرورت نہیں پڑے گی ۔ بیوی : کیوں ؟
شوہر : کیونکہ وہ بیماری کا علاج کرنے والے ڈاکٹر نہیں ہیں بلکہ پوسٹ مارٹم کرنے والے ڈاکٹر ہیں …!
ڈاکٹر گوپال کوہیرکر ۔ نظام آباد
…………………………