شیشہ و تیشہ

   

نیا سال!
آنا تھا جسے ، وہ تو بہرحال آیا
اندیشے کئی دِل میں نئے ڈال آیا
ارزانیاں پہلے ہی سے پژمردہ تھیں
مہنگائیاں خوش ہیں کہ نیا سال آیا
…………………………
فیض احمد فیض لدھیانوی
نیا سال
اے نئے سال بتا تجھ میں نیا پن کیا ہے؟
ہر طرف خلق نے کیوں شور مچا رکھا ہے
روشنی دن کی وہی، تاروں بھری رات وہی
آج ہم کو نظر آتی ہے ہر اک بات وہی
آسمان بدلا ہے افسوس ،نہ بدلی ہے زمیں
ایک ہندسے کا بدلنا کوئی جدت تو نہیں
اگلے برسوں کی طرح ہوں گے قرینے تیرے
کسے معلوم نہیں بارہ مہینے تیرے
جنوری، فروری اور مارچ میں ہوگی سردی
اور اپریل، مئی اور جون میں ہو گی گرمی
تیرا مَن دہر میں کچھ کھوئے گا کچھ پائے گا
اپنی میعاد ختم کر کے چلا جائے گا
تو نیا ہے تو دکھا صبح نئی ، شام نئی
ورنہ ان آنکھوں نے دیکھے ہیں نئے سال کئی
بے سبب دیتے ہیں کیوں لوگ مبارکبادیں
کیا سبھی بھول گئے وقت کی کڑوی یادیں
تیری آمد سے گھٹی عمر جہاں سے سب کی فیض نے لکھی ہے یہ نظم نرالے ڈھب کی
…………………………
استاد رامپوری
یہ سال دوسرا ہے
(جنوری سے ڈسمبر تک کا حساب کتاب )
جب تم سے اتفاقاً میری نظر ملی تھی
کچھ یاد آرہا ہے شاید وہ جنوری تھی
مجھ سے ملیں دوبارہ یوں ماہ فروری میں
جیسے کہ ہم سفر ہو تم راہِ زندگی میں
کتنا حسیں زمانہ آیا تھا مارچ لے کر
راہِ وفا پہ تھیں تم وعدوں کی ٹارچ لے کر
باندھا جو عہدِ اُلفت اپریل چل رہا تھا
دنیا بدل رہی تھی موسم بدل رہا تھا
لیکن مئی میں جبکہ دشمن ہوا زمانہ
ہر شخص کی زباں پر بس تھا یہی فسانہ
دنیا کے ڈر سے تم نے بدلی تھیں جب نگاہیں
تھا جون کا مہینہ لب پر تھیں گرم آہیں
جولائی میں جو تم نے کی بات چیت کچھ کم
تھے آسماں پہ بادل اور میری آنکھ پُرنم
ماہِ اگست میں جب برسات ہورہی تھی
بس آنسوؤں کی بارش دن رات ہورہی تھی
توڑا جو عہدِ اُلفت وہ ماہ تھا ستمبر
بھیجا تھا تم نے مجھ کو ترکِ طلب کا لیٹر
تم غیر ہوچکی تھیں اکتوبر آگیا تھا
دنیا بدل چکی تھی موسم بدل چکا تھا
جب آگیا نومبر ایسی بھی رات آئی
مجھ سے تمھیں چھڑانے سج کر بارات آئی
بے کیف تھا ڈسمبر جذبات مرچکے تھے
ان سرد مہریوں سے ارماں ٹھٹھرچکے تھے
پھر جنوری ہے لیکن اب حال دوسرا ہے
وہ سال دوسرا تھا یہ سال دوسرا ہے
………………………
قابل کون ؟
ایک لڑکے نے اپنے باپ سے پوچھا : ڈیڈی ! زیادہ قابل کون ہے میں یا آپ ؟
’’ظاہر ہے میں !‘‘ باپ نے کہا :
بیٹا : کیوں ؟
باپ : کیونکہ میری عمر زیادہ ہے ، میرا تجربہ زیادہ ہے ۔
بیٹا : پھر تو آپ جانتے ہوں گے امریکہ کی کھوج کس نے کی ؟
باپ : ہاں بیٹا جانتا ہوں ، امریکہ کی تلاش کولمبس نے کی تھی ۔
بیٹا بولا : کولمبس کے ڈیڈی نے کیوں نہیں کی۔ وہ تو کولمبس سے زیادہ قابل تھا…!!
ڈاکٹر فوزیہ چودھری ۔ بنگلور
………………………
شریف آدمی …!!
٭ سعادت حسن منٹو نے کافی لوگوں کے اسکیچ لکھے ہیں اور اس سلسلے میں انکی کتاب ’’گنجے فرشتے‘‘ کافی مشہور ہے۔
جب ان سے احمد ندیم قاسمی کا کیریکٹرا سکیچ لکھنے کی فرمائش کی گئی تو وہ اُداس ہو کر نہایت بجھے بجھے لہجہ میں کہنے لگے۔
’’قاسمی کا اسکیچ؟ وہ بھی کوئی آدمی ہے، جتنے صفحے چاہو سیاہ کرلو، لیکن بار بار مجھے یہی جملہ لکھنا پڑے گا۔
قاسمی بہت شریف آدمی ہے، قاسمی بہت شریف آدمی ہے‘‘۔
ابن القمرین۔ مکتھل
…………………………