شیشہ و تیشہ

   

فرید سحرؔ
سیاست !!
سیاست کھیل ہے اک بندروں کا
’’بھروسہ تُم نہ کرنا لیڈروں کا‘‘
نہیں ہے احترام اب عالموں کا
ہیں سُنتے مشورہ ہم جاہلوں کا
وتیرہ ہے میاں یہ بیویوں کا
ادب کرتیں نہیں وہ شوہروں کا
چُرا کے بیچتا ہے گاڑیاں وہ
اُسے کہتے ہو ڈیلر گاڑیوں کا
چلا سکتا ہوں میں آٹو بھی یارو
میں مالک ہوں کئی جو آٹوؤں کا
مری بیوی بھی یارو لکھ پتی ہے
وہ میک اپ کرتی ہے جو دُلہنوں کا
بہت ہی سخت ہے لوگو مرا دل
میں بزنس کر رہا ہوں پتھروں کا
فقط اک داد پرہوتے ہیں وہ خوش
عجب ہے حال اپنے شاعروں کا
ذرا سا لیٹ جو کل رات لوٹا
پتا سالن میں ہے نہ بوٹیوں کا
بہت مصروف ہیں اب قاضی صاحب
ہے سیزن آ گیا جو شادیوں کا
مرے مولا ہے تُجھ سے التجا یہ
نصیبہ نیک ہو سب بیٹیوں کا
خُدا غارت کرے اُس کو سحرؔ اب
جو دُشمن ہے ہماری مسجدوں کا
…………………………
بھوک میں!
٭ بمبئی (ممبئی) میں جوش ملیح آبادی ایک ایسے مکان میں ٹھہرے جس میں اوپر کی منزل پر ایک اداکارہ رہتی تھی، لیکن مکان کی ساخت کچھ ایسی تھی کہ انہیں دیدار نہ ہو سکتا تھا، لہذا انہوں نے یہ رباعی لکھی:
میرے کمرے کی چھت پہ اُس بُت کا مکان
جلوے کا نہیں ہے پھر بھی کوئی امکان
گویا اے جوش میں ہوں ایسا مزدور
جو بھوک میں ہو سر پہ اْٹھائے ہوئے خوان
ابن القمرین ۔ مکتھل
…………………………
جیب کے لئے وارننگ
لڑکا ! والد سے …
ابا ’’سوئیٹ وارننگ ‘‘ کا کیا مطلب ہوتا ہے ؟
والد : تمہاری ماں مجھ سے جو کہتی رہتی ہیں کہ ’’آپ جتنی دیر سوشل میڈیا پر مصروف رہیں گے میں اتنی دیر ’’آن لائین شاپنگ‘‘ کرتی رہوں گی …!!
رفعت موسیٰ ۔ چنچلگوڑہ
…………………………
بدقسمتی…!!
ڈاکٹر(مریض سے) : جب تم نے دیکھا کہ سامنے سے ایک عورت تیز رفتار گاڑی چلاتی ہوئی آرہی ہے تو تم اگر فٹ پاتھ پر ہٹ جاتے تو اتنے زخمی نہیں ہوتے …!
مریض : میں تو پارک میں بنچ پر لیٹا ہوا تھا جب ایک عورت کی گاڑی قابو سے باہر ہوکر مجھے آکر ٹکر ماری ۔
مظہر قادری ۔ حیدرآباد
…………………………
وہ کس لئے …!
شوہر بیوی سے : تمہاری روز روز کی شاپنگ سے میں تنگ آگیا ہوں اس لئے خودکشی کرنے جارہا ہوں ؟
بیوی : جاتے جاتے ایک دو وائیٹ جوڑے دلادیجئے …!شوہر : وہ کس لئے ؟
بیوی : عدت کے دنوں میں کیا پہنوں گی !
محمد حامداﷲ ۔ حیدرگوڑہ
…………………………
حسن سلوک
٭ ایک 8 سالہ شریر لڑکے سے اُس کے دوست نے پوچھا : ’’گزشتہ مہینے کی چھٹیاں گذارنے تم اپنے خالہ خالو(انکل) کے ہاں گئے ہوئے تھے ، وہ تمہاری شرارتوں سے تنگ تو نہیں آئے ؟‘‘
شریر لڑکے نے فوراً کہا : ’’بالکل نہیں ! انھوں نے بڑے پیار سے مجھے رکھا ، روزآنہ انکل مجھے کشتی میں بٹھاکر سیر کے لئے لے جاتے ، واپسی میں مجھے تیرکر آنا پڑتا ‘‘
دوست : ’’وہ کیوں ؟ ‘‘
شریر لڑکا : ’’وہ بے خیالی میں مجھے دریا میں پھینک دیتے تھے ‘‘۔
دوست : اتنی دور سے تیرکرآنا تمہیں مشکل تو لگتا تھا ہوگا ۔
شریر لڑکا : ’’تیرنا تو کچھ مشکل نہیں تھا اصل مشکل تو مجھے بوری سے نکلنے میں پیش آتی تھی ‘‘۔
محمد الیاس حامد ۔ عثمان باغ
…………………………