شیشہ و تیشہ

   

ڈاکٹر خواجہ فریدالدین صادقؔ
مزاحیہ غزل (پیاز)
کیسے ہم کو رُلارہی ہے پیاز
دل کو کیسے دُکھا رہی ہے پیاز
سونے چاندی کو کس نے دیکھا ہے
اب تو منہ کو چھپا رہی ہے پیاز
ہند کی ہوکے بکی بدیشوں میں
دور کیسا دکھارہی ہے پیاز
کوئی قلّت نہیں ہے اس کی پر
دام اپنے بڑھا رہی ہے پیاز
دال و روٹی و پیاز کھاتے تھے
خالی روٹی کھلا رہی ہے پیاز
دور ایسا بھی ہم نے دیکھا ہے
تخت دہلی ہلا رہی ہے پیاز
مہنگے چاول ہیں مہنگی ترکاری
بھاؤ اپنے بڑھا رہی ہے پیاز
سونے کی اک انگوٹھی کے بدلے
دلربا بھی منگارہی ہے پیاز
توڑ کے تارے لانا ہے آساں
لاؤں کیسے ستارہی ہے پیاز
ساتھ دُلہن کے پیاز دو ٹن دو
جوڑا گھوڑا بُھلا رہی ہے پیاز
اب دعائیں ہی کرتے رہنے کو
دیکھ ہم کو جتا رہی ہے پیاز
ہم نے دیکھے کئی گھٹالے پر
دور کیسا دکھا رہی ہے پیاز
عورتیں پہلے روتی تھیں صادقؔ
مردوں کو اب رُلا رہی ہے پیاز
………………………
کچھ پیازی مکالمے …!
٭ میرے کرن ارجن آئیں گے اور دو کیلو پیاز لائیں گے۔
٭ یہ ڈھائی کیلو کی پیاز جب آدمی لیتا ہے ناں ، تو آدمی اُٹھتا نہیں اُٹھ جاتا ہے!
٭ میرے پاس بنگلہ ہے گاڑی ہے بنک بیلنس ہے روپیہ ہے پیسہ ہے ، تمہارے پاس کیا ہے؟
میرے پاس ’’پیاز ‘‘ہے بھائی!
٭ جن کے گھر پیاز کے سلاد ہوتے ہیں، وہ بتی بجھا کر کھانا کھاتے ہیں۔
٭ چنائے سیٹھ! پیاز بچوں کے کھیلنے کی چیز نہیں ہوتی، کٹ جائے تو آنکھوں سے آنسو نکل آتے ہیں۔
٭ میں آج بھی پھینکے ہوئے پیسے نہیں اٹھاتا صاحب… پیاز ہو تو الگ بات ہے!
٭ لگتا ہے سبزی منڈی میں نئے آئے ہو برخوردار… سارا شہر مجھے ’پیاز ‘کے نام سے جانتا ہے…!
٭ گیارہ ملکوں کی سرکار مجھے ڈھونڈ رہی ہے، پر پیاز کو خریدنا مشکل ہی نہیں ناممکن ہے!
٭ یہ دونوں پیاز مجھے دے دو ٹھاکر !!
٭ تمہیں چاروں طرف سے پولیس نے گھیرلیا ہے گبر، اپنی ساری ’پیاز ‘قانون کے حوالے کر دو۔
مولانا عبدالعلیم کوثر ۔ مکتھل
…………………………
پہلے یہ …!
٭ دو دوست آپس میں حالاتِ حاضرہ پر محو گفتگو تھے ، ڈھیر ساری باتیں ہوتی رہیں ، اسی دوران موضوع گفتگو آپہنچی مہنگائی پر ، ایک نے کہا یار ترکاری ، گوشت ، چاول اور دال کی قیمتیں پہلے ہی آسمان کو چھورہی تھیں اب یہ پیاز !
جیسے ہی پیاز کا ذکر آیا دوسرے نے کہا ، ’’پیاز ! پیاز کی بات ہی نہ کرو یار ، یہ تو ہمیشہ سے ہی رُلاتی رہی ہے ‘یہ الگ بات ہے کہ پہلے یہ عورتوں کو رلاتی تھی لیکن اس کی قیمت اب مردوں کو رُلارہی ہے ‘‘۔
دستگیر نواز ۔ حیدرآباد (دکن)
…………………………
ایک بھی نہیں …!
مکان مالک ( کردار سے ) :’’ بیٹا ! پورے سال تو اتنی تمہاری کزن سسٹر اور دیگر رشتوں کی بہنیں آتی رہیں ، پر راکھی والے دن ایک بھی نہیں آئی …؟‘‘
عبدالقدوس ۔ ملک پیٹ
…………………………
فضول خرچ …!
کنجوس باپ (بیٹے سے ) : کیا تم کچھ پڑھ رہے ہو ؟
بیٹا : نہیں ڈیڈی ۔
باپ : کیا تم کچھ لکھ رہے ہو؟
بیٹا : نہیں ڈیڈی ۔
باپ : چشمہ کیوں پہن کر بیٹھے ہو ۔ فوراً نکال دو ، مجھے تمہاری یہ فضول خرچی بالکل پسند نہیں…!
ڈاکٹر گوپال کوہیرکر ۔ نظام آباد
…………………………