شیشہ و تیشہ

   

فرید سحرؔ
سسرے کو ٹوپی…!
سسرال سے اب آئے ہیں دعوت اُرا کے ہم
میکے سے اُن کو لائے ہیں تحفے بھی پاکے ہم
حالانکہ باپ ہم بنے بیٹے کے اک مگر
سُسرے کو ٹوپی ڈالے ہیں خرچہ کراکے ہم
………………………
لیڈرؔ نرملی
ذرا دیر لگے گی …!
سُسرے کو پٹانے میں ذرا دیر لگے گی
چیک سائن کرانے میں ذرا دیر لگے گی
لیڈرؔ کوئی اُوٹی میں ہے تو کوئی گوا میں
سرکار بنانے میں ذرا دیر لگے گی
………………………
اقبال شانہؔ
مزہ آتا ہے
کوئی چوری کی غزل ہو تو مزہ آتا ہے
اس میں کچھ رد و بدل ہو تو مزہ آتا ہے
سامنے تاج محل ہو تو مزہ آتا ہے
ساتھ ممتاز محل ہو تو مزہ آتا ہے
اس لیے مجھ کو دوائی سے محبت ہے میاں
اس کے بھیجے میں خلل ہو تو مزہ آتا ہے
دودھ پیتے ہیں مگر بات سمجھتے ہی نہیں
جب شکر دودھ میں حل ہو تو مزہ آتا ہے
لوگ جب لڑتے ہیں پانی کے لئے نلکے پر
ہوا دیتا ہوا ’’نل‘‘ ہو تو مزہ آتا ہے
پان کھاکر جو رسالے کا ورق ہاتھ آئے
اس میں شانہؔ کی غزل ہو تو مزہ آتا ہے
………………………
اب چلاؤ…!!
٭ وہ ’’ایکسپریس ٹرین‘‘ قریب قریب ’خالی‘ تھی۔ وکیل صاحب جس 3AC کوچ میں بیٹھے تھے اس میں بہت کم مسافر تھے، اور ان کے والے پورشن میں تو ان کے علاوہ دوسرا کوئی بھی مسافر نہیں تھا، وہ بالکل اکیلے تھے۔
تبھی ایک عورت ان کے والے پورشن میں داخل ہوئی اوروکیل صاحب سے بولی: ’’مسٹر، تمہارے پاس جو بھی روپیہ،پیسہ، سونا، گھڑی، موبائیل ہے اسے میرے حوالے کردو ورنہ میں چلّاؤں گی کہ تم نے میرے ساتھ ’’چھیڑ چھاڑ‘‘ کی ہے‘‘۔
وکیل صاحب نے خاموشی سے اپنے بیگ سے ایک کاغذ نکالا اور اس پر لکھا… ’’میں گونگا بہرہ ہوں،نہ بول سکتا ہوں اور نہ ہی سن سکتا ہوں،تمہیں جو کچھ کہنا ہے، اس کاغذ پر لکھ دو!‘‘
اس عورت نے جو کچھ بھی کہا تھا اس کاغذ پر لکھ کر دیدیا۔
وکیل صاحب نے اُس کاغذ کو موڑ کر حفاظت سے اپنی جیب میں رکھا اور بولے
’’ہاں، اب چِلّاؤ…!!‘‘
ابن القمرین ۔ مکتھل
………………………
سمجھوتہ
٭ شادی کے بعد میاں بیوی کی لڑائی ہوگئی! آدھا دن چپ چاپ گزرنے کے بعد بیوی اپنے میاں کے پاس آئی اور بولی: تھوڑا آپ سمجھوتا کرو! تھوڑا میں سمجھوتا کرتی ہوں!
میاں: بہتر ہے، بتائیے کس طرح سمجھوتا کرنا ہے؟ بیوی: آپ معافی مانگ لو! میں معاف کردوں گی۔
سید احمدالدین قادری ۔ چنچل گوڑہ
………………………
ہمدردی …!
٭ ایک پروفیسر صاحب بس میں سوار ہوئے تمام سیٹیں بھری ہوئی تھیں ، اس لئے وہ ڈنڈا پکڑ کر کھڑے ہوگئے ۔ اُن کے دوسرے ہاتھ میں بیگ تھا ۔ انھوں نے ڈنڈا چھوڑکر کئی مرتبہ جیب میں سے پیسے نکالنے کی کوشش کی مگر کامیاب نہ ہوسکے ، کیونکہ بس ہچکولے کھارہی تھی ۔ پاس کھڑے ہوئے ایک آدمی نے اخلاقاً کہا ’’معاف کیجئے کیا میں آپ کی کوئی مدد کرسکتا ہوں؟ ‘‘
’’شکریہ !‘‘ پروفیسر صاحب بولے ۔ ’’مہربانی کرکے یہ ڈنڈا پکڑ لیجئے ، میں جیب سے پیسے نکال لوں …!!‘‘۔
نظیر سہروردی۔ راجیونگر
………………………
پھر جل گئی…!!
٭ ایک کار والے کو سفر کے دوران شک گزرا کہ انڈیکٹر کام نہیں کررہے ہیں ۔ اس نے گاڑی رروک کر قریب سے گزرتے ہوئے دیہاتی سے کہا ’’ذرا دیکھ کر بتاؤ انڈیکٹر کی بتی جلتی ہے یا نہیں ؟ ‘‘ ۔
دیہاتی کار کے پیچھے جا کھڑا ہوا ’’چل رہی ہے ‘‘ … ہاں جل گئی … بند ہوگئی … جل گئی … بند ہوگئی … پھر جل گئی بند ہوگئی دیہاتی نے چیخ کر جواب دیا۔
سید حسین جرنلسٹ ۔دیورکنڈہ
………………………