شیشہ و تیشہ

   

سرفراز شاہد
سوچ لے …!!
کلوننگ ٹیکنیک کے تناظر میں
تُو نے ٹھکرا دیا ہمیں جاناں
ہم بھی ایسی تری خبر لیں گے
بائیو ٹیکنیک کی مدد سے ہم
اپنا دامن خوشی سے بھر لیں گے
یعنی تیرے بدن کے خلیے سے
اک حسینہ ’کلون‘ کر لیں گے
وہ حسینہ جو خوش ادا ہو گی
زندگی میں بہار لائے گی
جانِ جاں تیری ہو بہو کاپی
میرے پہلو میں مسکرائے گی
وہ ہنسے گی تجھے رلائے گی
پھر تجھے نیند کیسے آئے گی
سوچ لے اب بھی وقت ہے جاناں
………………………
اکبر الٰہ آبادی اور جوتا …!
٭ اکبرالہٰ آبادی ایک مرتبہ جوتے خریدنے جوتوں کی دوکان پر گئے ۔ دوکاندار نے کئی قسم کے جوتے بتلائے ۔ اُنھوں نے ایک جوتا اُٹھایا اور اسے پہن لیا۔ دوکاندار سے قیمت پوچھی تو اُس نے 80 روپیہ بتائی۔ اکبر اتنی زیادہ قیمت سُن کر جھنجلا اُٹھے اور بولے ’’پچاس روپیہ لیتے ہو یا اُتاروں جوتا …!!‘‘
سید اعجاز احمد۔ ورنگل
…………………………
احتیاطً …!!
بیوی : جب میں گانا گاتی ہوں تو آپ بالکنی میں جاکر کیوں کھڑے ہوجاتے ہیں…!؟
شوہر : تاکہ پڑوسی یہ نہ سمجھے کہ میں تمہارا گلا دبا رہا ہوں …!!
مظہر قادری ۔ حیدرآباد
…………………………
آپ کیلئے …!؟
بیوی : آپ کی سالگرہ کیلئے اتنا قیمتی سوٹ خریدا ہے کہ بس …!
شوہر : بہت بہت شکریہ …!!
اچھا ذرا دکھاؤ تو سوٹ کیسا ہے …؟
بیوی : میں ابھی پہن کر آتی ہوں …!!
سید شمس الدین مغربی
………………………
ایسی بات ہے …!!
٭ ایک لمبی زلفوں والے صاحب اخبار کا مطالعہ کررہے تھے ، اتنے میں ان کا سر کھجانے لگا ۔ جب سر کھجانے لگے تو اُنھیں ایک جُوں ملی ۔ اس جُوں کو اپنی ہتھیلی میں رکھ کر یہ نغمہ گانے لگے :
مار دیا جائے یا چھوڑ دیا جائے
بول تیرے ساتھ کیا سلوک کیا جائے
جُوں کب خاموش بیٹھنے والی تھی اس نے بھی ایک نغمہ شروع کردیا …!
تیری زلفوں سے جدائی تو نہیں مانگی تھی
قید مانگی تھی رہائی تو نہیں مانگی تھی
زلفوں والے صاحب نے نغمہ سُن کر کہا ایسی بات ہے ، کہہ کر پھر جُوں کو اپنے بالوں میں چھوڑدیئے …!!
سید اعجاز احمد۔ ورنگل
………………………
پہلے پاسپورٹ …!!
ایک بزنسمین اپنے ساتھی بزنسمین سے : بینک والے بھی سبق سیکھنے کانام نہیں لیتے ہیں؟ کئی بزنسمین پیسے لے کر چلتے بنے ، اس کے باوجود پرسنل لون دینے کو فون کرتے رہتے ہیں…!!
دوسرا بزنسمین : تو تم نے کیا کہا …!؟
پہلا بزنسمین : میں نے بینک والے کو کہا بھائی …! پہلے پاسپورٹ تو بنالینے دو …!!
مبشرسید۔چنچلگوڑہ
………………………
زندگی کا مقصد …!
٭ ٹیچر : ’’تم بڑے ہو کر کیا کرو گے؟‘‘
اسٹوڈنٹ : ’’شادی‘‘
ٹیچر : ’’نہیں، میرا مطلب ہے کیا بنو گے؟‘‘
اسٹوڈنٹ : ’’دولہا بنوں گا‘‘
ٹیچر : ’’اوہو، میرا کہنے کا مقصد ہے، بڑے ہو کر کیا حاصل کرو گے؟‘‘
اسٹوڈنٹ : ’’دلہن‘‘
ٹیچر : ’’ابے، مطلب بڑے ہو کر ممی پاپا کیلئے کیا کرو گے؟‘‘
اسٹوڈنٹ : ’’بہو لاؤں گا‘‘
ٹیچر (غصہ میں): ’’حرام خور، تمہارے پاپا تم سے کیا چاہتے ہیں؟‘‘
اسٹوڈنٹ : ’’پوتا‘‘
ٹیچر: ’’ ابے زندگی کا کیا مقصد ہے؟‘‘
اسٹوڈنٹ : ’’ہم دو، ہمارے دو‘‘۔
ابن القمرین ۔ مکتھل
…………………………