شیشہ و تیشہ

   

مرزا یاور علی محورؔ
شامت …!!
پوچھا بیگم سے تم کو سوتن کی
کیا ضرورت نظر نہیں آتی
بولی آتی ضرور آتی ہے
تم کو شامت نظر نہیں آتی
………………………
شاہدؔ عدیلی
مزاحیہ غزل
شی ٹیم کی نظر میں ہمیشہ ہی ہم رہے
وﷲ پھر بھی عشق میں ثابت قدم رہے
دفتر سے آج وقت پہ جو گھر میں ہم رہے
کھانے میں اتفاق سے کنکر بھی کم رہے
شادی کے بعد دونوں کے حلیئے بگڑگئے
تم بھی وہ تم رہے نہ وہ اب ہم بھی ہم رہے
حد ہوگئی ہے دیکھئے ان کے غرور کی
کہتے ہیں اُن کے جیسے نہ اہلِ قلم رہے
پہلی کا نام رنج ہے دوجی کا ہے الم
کب تک ہمارے ساتھ یہ رنج و الم رہے
شاہدؔ ہر اک نوالے میں کھانے کے ساتھ ساتھ
زلفِ درازِ اہلیہ کے پیچ و خم رہے
………………………
ہشیار باش …!!
٭ بڑھاپے کی شادی اور بینک کی چوکیداری میں ذرا فرق نہیں ۔ سوتے میں بھی ایک آنکھ کھلی رکھنی پڑتی ہے ۔
(مشتاق احمد یوسفی … زرگزشت)
نجیب احمد نجیب۔حیدرآباد
………………………
وہاں عوام ہوتے ہیں
٭ علی سردار جعفری ایک محفل میں آم چوس رہے تھے ۔ آم چوستے چوستے مجازؔ سے پوچھا ’’ یار روس میں آم بھی تو ہونگے ‘‘
مجاز نے برجستہ کہا ’’ نہیں ! وہاں عوام ہوتے ہیں‘‘۔
ابن القمرین ۔ مکتھل
………………………
سیلف کنٹرول…!
شوہر : تمہارے سیلف کنٹرول کی داد دینی چاہئے …!؟
بیوی : خوشی سے وہ کیسے …؟
شوہر : چارسو کے اوپر شوگر جسم میں رہنے کے باوجود زبان سے ایک لفظ بھی میٹھا نہیں نکلتا…!!
………………………
خوش قسمت…!
پہلا : ( خوشی سے ) میری بیوی جنتی ہے ۔
دوسرا: (افسوس سے ) تم خوش قسمت ہو ، میری بیوی ابھی زندہ ہے …!!
مظہرقادری ۔حیدرآباد
………………………
لکھ پتی …!
٭ تین دوست آپس میں گپ شپ لڑا رہے تھے سوال ہوا کہ کسی دن سو کر اُٹھنے پر ہمکو یہ پتہ چلے کہ ہم لکھ پتی بن گئے ہیں تو ہم کیا کریں گے ۔
ایک نے کہا : ہم تو سیدھے لندن جائیں گے اور خوب مزہ کریں گے ۔
دوسرے نے کہا : ہم کسی فائدہ بخش کاروبار میں روپیہ لگائیں گے ۔
تیسرے نے کہا : ہم تو پھر سے سونے کی کوشش کریں گے تاکہ اور کئی لاکھ مل جائیں…!!
محمد امتیاز علی نصرت ۔ پداپلی ،کریمنگر
………………………
کیا خدمت کرسکتا ہوں؟
٭ ایک صاحب کو ان کے سکریٹری نے انٹرکام پر اطلاع دی کہ ایک خوبصورت سی لڑکی آپ سے ملنے آئی ہے ۔ تو ان صاحب نے کہا ’’اسے چند سکنڈ کے بعد بھیج دینا ‘‘
اس کے بعد انھوں نے ریسیو ر اُٹھالیا ۔ اسی اثناء میں وہ لڑکی اندر داخل ہوگئی ۔وہ صاحب باتیں کرنے لگے : ’’ہاں بھئی وزیراعلیٰ اگر بات کرنا چاہتے ہو تو کہو ، میں مصروف ہوں۔ پھر کسی وقت بات کریں ۔ اور گورنر صاحب سے کہو ۔ میں فارغ ہوکر ان سے ملونگا اور ہاں وہ پچاس لاکھ کے چیک کا کیا ہوا ؟ کیش بنا یا نہیں ؟ اچھا جلدی سے مجھے اس کے بارے میں معلوم کرکے بتاؤ ، خدا حافظ ‘‘ ۔
اب انھوں نے پلٹ کر لڑکی سے پوچھا : جی فرمائیے ! میں آپ کی کیا خدمت کرسکتا ہوں؟
لڑکی نے طنزیہ مسکراہٹ کے ساتھ کہا :’’میں ٹیلی فون کے محکمہ میں ملازم ہوں اور آپ کا ٹیلی فون ٹھیک کرنے آئی ہو ں جو کل سے ڈیڈ ہے !‘‘
محمد عبدالوسیع شاداب ۔ کوٹگیر ، نظام آباد
……………………………