شیشہ و تیشہ

   

انورؔ مسعود
بظاہر…!
آفت کو اور شر کو نہ رکھو جُدا جُدا
دیکھو اِنہیں ملا کے شرافت کہا کرو
ہر اِک لچر سی چیز کو کلچر کا نام دو
عُریاں کثافتوں کو ثقافت کہا کرو
……………………………
فرید سحرؔ
مزاحیہ غزل …!!
جب بُڑھاپا سوار ہوتا ہے
باپ بیٹے پہ بار ہوتا ہے
پُھول جس کو کبھی سمجھتے تھے
اب وہ کیکر کا خار ہوتا ہے
کیسے جیتیں گے اب لڑائی یہ
ہم پہ پیچھے سے وار ہو تا ہے
بلب سارے ہی رہتے ہیں روشن
جب بھی میٹر میں تار ہو تا ہے
پیار ہوتا ہے خود غرض سب کا
بے غرض ماں کا پیار ہو تا ہے
آف کرتے ہیں ہم بھی گاڑی کو
جب سڑک پر اُتار ہو تا ہے
لفظ ہوتا ہے ایک موتی بھی
لفظ خنجر کی دھار ہو تا ہے
پہلے لڑکی فرار ہوتی تھی
آج لڑکا فرار ہو تا ہے
قرض دیتے ہیں یار کو جب بھی
دور ہم سے وہ یار ہو تا ہے
آج اپنا بھی ائے سحرؔ اچھے
شاعروں میں شمار ہوتا ہے
…………………………
ہوشیاری کا نتیجہ…!
٭ دو دوست اپنے آپ کو بہت چالاک سمجھتے تھے ۔ ایک مرتبہ اُنہیں امرتسر سے لدھیانہ جانا تھا، ٹرین میں بہت رش تھا اور رات کا وقت تھا ، انہوں نے ایک ڈبے میں داخل ہو کر ادھر اُدھر دیکھا اور پِھر شور مچانا شروع کر دیا کے ڈبے میں سانپ گھس آیا ہے ، یہ سن کر تمام مسافر نیچے اُتَر گئے اور یہ دونوں بستر لگا کر آرام سے سو گئے۔ صبح اُن کی آنکھ کھلی تو ایک دوست نے ڈبے کے پاس کھڑے قلی سے پوچھا ۔ ’’ کیا لدھیانہ آ گیا ؟‘‘ قلی بولا : ’’ ارے بھائی صاحب کل رات اِس ڈبے میں سانپ نکل آیا تھا ، اِس لیے اِس ڈبے کو ٹرین سے علیحدہ کر دیا گیا تھا ‘‘۔
ابن القمرین ۔ مکتھل
…………………………
لعنت تیری مثال پر…!
کسٹمر بینکر سے : اگر میں آج چیک جمع کرواتا ہوں تو کب تک کلیئر ہوجائیگا؟
بینکر : جناب 2-3 دن لگیں گے ۔
کسٹمر : دونوں بینک آمنے سامنے ہے پھر اتنے دن کیوں لگیں گے ؟
بینکر : جناب پروسیجر(طریقہ ) تو فالو کرنا پڑتا ہے ۔ مثال کے طورپر اب جیسے اگر آپ قبرستان کے باہر حادثہ میں مرجاتے ہیں تو پہلے آپ کو گھر لے کر جائیں گے ، غسل دیں ، کفن پہنائیں گے ، نماز جنازہ پڑھائیں گے یا وہیں مرتے ہی آپ کو دفنا تو نہیں دیں گے ؟
کسٹمر : لعنت تیری مثال پر منحوس کہیں کا!
سلطان قمرالدین خسرو ۔ مہدی پٹنم
…………………………
اُس کے بعد …!
٭ حجام (پہلوان سے ) مخاطب ہوکر : ’’اگر میں آپ کے سارے بال کاٹ دوں گا تو آپ کو کوئی بھی پہچان نہیں پائے گا ‘‘۔
پہلوان : ’’مگر اس کے بعد میں جو تمہاری حالت کروں گا تو تمہیں بھی کوئی پہچان نہیں سکے گا …!!
رضیہ حسین ۔ گنج کالونی ، گلبرگہ شریف
…………………………
اشتہار …!
٭ ایک دولتمند شخص کسی چھوٹے سے پہاڑی علاقہ میں گیا جہاں گھومتے وقت اُس کا قیمتی کُتا کہیں گم ہوگیا ۔ اُس نے مقامی اخبار میں اشتہار دیا کہ جو بھی میرے کُتے کو ڈھونڈ نکالے گا میں اُسے بیس ہزار روپئے انعام کے طورپر دونگا ۔
دوسرے دن اخبار نہ چھپا تو وہ اخبار کے دفتر گیا تو دیکھا کہ وہاں پر تالہ لگا ہوا تھا اور باہر چپراسی بیٹھا ہوا ہے ۔ اُس نے چپراسی سے پوچھا کہ اخبار کیوں نہیں چھپا ؟
اس پر چپراسی نے بتایا کہ سارے اخبار والے کتّے کو ڈھونڈنے کیلئے گئے ہوئے ہیں۔ ملازمین نہیں چاہتے کہ اشتہار دیکھ کر کوئی اور کُتّا ڈھونڈ نکالے ۔
رضیہ بیگم ، قادر حسین ۔ حکیم پیٹھ
………………………