شیشہ و تیشہ

   

اظہرؔ
ماسک!!
ماسک سے یوں تو ہم بھی ڈرتے ہیں
ڈرتے ڈرتے اُسے لگاتے ہیں
ہم گناہگار ہوگئے شاید
اس لئے منہ چھپائے پھرتے ہیں
…………………………
المیہ !!
درسی کتاب بکتی ہے فُٹ پاتھ پر یہاں
جوتے سجے ہوئے ہیں وہ شوکیس میں وہاں
اظہرؔ ہمارے دور کا یہ بھی ہے المیہ
بکنے کی چیز بکتی ہے لیکن کہاں کہاں
…………………………
لیڈرؔ نرملی
غزل ( مزاحیہ)
شعر انگریز بیچارے کو سُنارئیں حضرت
بھینس کے سامنے کیوں بین بجارئیں حضرت
گھر میں ڈائٹنگ پہ رہتے ہیں بچانے راشن
جاکے دعوت میں مگر جم کے ٹکارئیں حضرت
ووٹ کے واسطے نکوّنا یہ جُھوٹے وعدے
کُہنی کو جنتا کی گُڑ کیکو لگارئیں حضرت
ینگ دکھنے کو چچا روز بنارئیں شیونگ
بچھڑوں میں ملنے کو لیو سینگاں کٹارئیں حضرت
راج کرنا کتے سسرال میں اپنی بیٹی
اور خود گھر میں بہو کو تو ستارئیں حضرت
روک لو گھپلوں گُھٹالوں سے ذرا لیڈرؔ کو
دیش کو کھوکھلا اندر سے بنارئیں حضرت
…………………………
زاویۂ نظر
دو خواتین کی بات چیت :
مسز عادل : اور کل شام کیسی رہی ؟
مسز پرویز : ارے بیڑہ غرق۔ وہ آفس سے آئے ، جلدی جلدی کھانا کھایا اور چُپ چاپ سوگئے ۔ بات تک نہ کی مجھ سے ! تم سناؤ تمہاری کیسی رہی …؟
مسز عادل : بیحد رومانٹک ، وہ آفس سے آئے پھر ہم ایک بہترین ریستوران میں ڈنر پر گئے ۔ پھر ایک طویل رومانٹک چہل قدمی ۔ پھر گھر آکر چاروں طرف اُنھوں نے موم بتیاں جلادیں ، کیا بتاؤں یار کتنا زبردست ماحول بن گیا …!!
l اب انہی خواتین کے شوہروں کی بات چیت پڑھیئے :
عادل : ہاں بھئی ! کل شام کیسی رہی ؟
پرویز : ارے بہترین ! گھر پہنچا ، سکون سے کھانا کھایا اور پھر آرام سے سوگیا ، نوجھک جھک نو کِرکری ۔ شاندار رہا سب !
عادل : تو سنا تیری شام کیسی رہی ؟
پرویز : ارے اپنی تو لگ گئی یار ! گھر پہنچا تو دیکھا کہ بجلی والے کنکشن کاٹ گئے کیونکہ میں گھر کی ٹینشن میں بل بھرنا بھول گیا تھا ۔ اندھیرے کی وجہ سے بیوی نے کھانا بھی نہیں بنایا تو باہر کھانے جانا پڑا ۔ کمبخت ریستواں اتنا مہنگا نکلا کہ جیب خالی ہوگئی ۔ آٹو کے کرائے کے پیسے بھی نہیں بچے اس لئے گھر تک پیدل پریڈ کرنی پڑی ۔ گھر پر بجلی نہیں تھی تو ساری رات موم بتیاں جلاکر بغیر پنکھے کے رہا یار ! مچھر کھاگئے ! کُل ملاکر ایسی منحوس شام کبھی نہیں دیکھی …!!
نُصیر عارض خان ۔ شیخ پیٹ
…………………………
کیا بنوگے ؟
استاد شاگرد سے : تُم بڑے ہوکر کیا کرو گے ؟
شاگرد : شادی
اُستاد : میرا مطلب ہے کیا بنوگے ؟
شاگرد : دولہا
استاد : تم بڑے ہوکر کیا حاصل کرو گے ؟
شاگرد : دُلہن
استاد : ارے بڑے ہوکر ماں باپ کے لئے کیا لاؤ گے ؟ شاگرد : گھر میں بہو لاؤں گا ۔
استاد : تمہارے والدین تم سے کیا چاہتے ہیں؟
شاگرد : پوتا ، پوتی
استاد : ارے بیوقوف تمہاری زندگی کا مقصد کیا ہے؟
شاگرد : ہم دو ہمارے دو ۔
یہ سنتے ہی استاد سر پکڑ کر بیٹھ گئے ۔
ڈاکٹر گوپال کوہیرکر ۔ نظام آباد
…………………………
کم از کم …!
٭ مشہور شاعر محسن احسان علیل تھے۔ احمد فرازؔ عیادت کے لئے گئے۔ دیکھا کہ محسن احسان کے بستر پر کتابوں کا ڈھیر لگا ہوا ہے۔ چادر بھی میلی تھی۔ احمد فراز نے صورت حال دیکھ کر مسکراتے ہوے محسن سے کہا : ’’یار اگر بیوی بدل نہیں سکتے تو کم از کم بستر ہی بدل دیجئے‘‘
ابن القمرین ۔ مکتھل
…………………………