شیشہ و تیشہ

   

انورؔ مسعود
پدر تمام کند!
بھینس رکھنے کا تکلف ہم سے ہوسکتا نہیں
ہم نے سْوکھے دودھ کا ڈبا جو ہے رکھا ہوا
گھر میں رکھیں غیر محرم کو ملازم کس لئے
کام کرنے کے لئے اَبا جو ہے رکھا ہوا
………………………………
ضیاء الحق قاسمی ضیاءؔ
مزاحیہ غزل
معشوق جو ہے ٹھگنا تو عاشق بھی ہے ناٹا
اس کا کوئی نقصان نہ اسکا کوئی گھاٹا
تیری تو نوازش ہے کہ تو آگیا ہے لیکن
اے دوست میرے گھر میں نہ چاول ہے نہ آٹا
لڈن تو ہنی مون منانے گئے لندن
چل ہم بھی کلفٹن پہ کریں سیر سپاٹا
تم نے تو کہا تھا کہ چلو ڈوب مریں ہم
اب ساحل دریا پہ کھڑے کرتے ہو ٹاٹا
عشاق رہ عشق میں محتاط رہیں گے
سیکھا ہے حسینوں نے بھی اب جوڈو کراٹا
کالا نہ سہی لال سہی تل تو بنا ہے
اچھا ہوا مچھر نے تیرے گال پہ کاٹا
اس روز سے میں نے اس کو چھیڑا تو نہیں تھا
جس روز سے ظالم نے جمایا ہے چماٹا
جب اس نے بلایا تو ضیاءؔ چل دیئے گھر سے
بستر کو رکھا سر پہ لپیٹا نہ لپاٹا
…………………………
کس بات کا ڈر!
ایک دوست اپنے دوسرے دوست سے : بغیر کسی حفاظت کے چپل چھوڑنے اور مس کال “Missed call” دینے میں کیا بات ’کامن‘(Common) ہے ۔
دوسرا دوست : دونوں میں اسی بات کا ڈر لگا رہتا ہے کہ ’’کوئی اُٹھا نہ لے ‘‘
رضیہ بیگم قادر حسین ۔ رامچندراپورم
…………………………
پریشانی کی وجہ ؟
٭ ایک پارٹی میں ایک لڑکی نے اپنی سہیلی سے کان میں کہا : ’’وہ سامنے بیٹھا آدمی آدھے گھنٹے سے مجھے پریشان کررہا ہے ‘‘۔
کیوں کیا کیا اس نے ؟
سہیلی نے سوالیہ انداز میں پوچھتے ہوئے کہا ’’میرے خیال میں تو اس نے نظر اُٹھاکر بھی تمہاری طرف نہیں دیکھا !‘‘۔
’’یہی تو پرابلم ہے ، اسی طرح تو وہ مجھے پریشان کررہا ہے !‘‘ دوسری لڑکی نے کہا !
محمد منیرالدین الیاس ۔ مہدی پٹنم
…………………………
’’ابھی تم… !‘‘
٭ ایک بیمار شخص نے ہوش میں آنے کے بعد چاروں طرف نظریں دوڑاتے ہوئے بڑبڑانا شروع کردیا : ’’میں کہاں ہوں ؟، میں کہاں آگیا ہوں ؟ ، میں کہا ہوں ! جنت میں یا دوزخ میں ؟
اُس کے پاس ہی بیٹھی اُس کی بیوی نے فوراً زور دار آواز میں کہا ’’نہیں ! نہیں ڈارلنگ ، گھبراؤ نہیں ، ابھی تم میرے ہی پاس ہو !!
جلیس الرحمن محمدی رباب ۔ ٹولی چوکی
………………………
شوق کی انتہاء
٭ ایک دوست دوسرے سے کہہ رہا تھا:
’’یار وہ اپنے دوست وکیل احمد خان تھے نا… وہ جنھیں ہر چیز کی تہہ تک پہنچنے کا شوق تھا۔‘‘
دوسرے نے چونک کر پوچھا:
’’کیا ہوا انھیں۔‘‘
پہلے نے جواب دیا:
’’وہ ڈوب کر مر گئے؟‘‘
ابن القمرین ۔ مکتھل
…………………………
عمر کا چکر !
٭ جج صاحب نے گواہ سے پوچھا : ’’تمہاری عمر کیا ہے ؟ ‘‘
گواہ : جی ! 45 سال ۔
جج صاحب : مگر دو سال پہلے بھی اس مقدمہ کی پہلی پیشی پر تم نے اپنی عمر ’45’ سال ہی بتائی تھی !
گواہ : ٹھیک فرماتے ہیں حضور ! عدالت میں دیئے گئے بیان کو بھلا میں کیسے بدل سکتا ہوں…!!
…………………………
دیکھتے نہیں !!
باپ بیٹے سے : بیٹا تم یہ سائیکل کا بریک (Break) لیکر کیوں ناچ رہے ہو ؟
بیٹا : دیکھتے نہیں پاپا ! میں بریک ڈانس کررہا ہوں …!
محمد افتخار علی ۔ اندول
…………………………