شیشہ و تیشہ

   

پاپولر میرٹھی
سال بھر بعد !!
چھ مہینے میں ہی یہ حال کیا بیوی نے
سال بھر بعد تو شاید کبھی خوابوں میں ملیں
اس طرح رکھتی ہے وہ ہم کو دبا کر گھر میں
جس طرح سوکھے ہوئے پھول کتابوں میں ملیں
…………………………
وحید واجد (رائچور)
پُوچھونکو
لیڈراں چھوٹے بڑے پوچھو نکو
سب کے سب چِکنے گھڑے پوچھو نکو
نکّو بولے تو الیکشن پھر لڑکے
منہ کے بَل گِر کو پڑے پوچھو نکو
بَیل گائے کے قصایاں آج کل
بیچ رئیں اِڈلی وڑے پوچھو نکو
مرتے دم تک ٹوکرے میں ہی رہیں گے
سب کے سب ہیں کیکڑے پوچھو نکو
جیب کترے، غنڈے ، قاتل ، قیدیاں
سب الیکشن میں کھڑے پوچھو نکو
جو ہُوا سو ہوگیا تاریخ میں
کون ہیں مُردے گڑے پوچھو نکو
دونوں مُرغی انڈے کو لے کر بہت
اب بھی ہیں ضِد پو اڑے پوچھو نکو
کُھل گئے ہیں جب سے بیوٹی پارلر
سب بدل رئیں تھوبڑے پوچھو نکو
نکّو بولے تو پیا میں کیا کروں
پُورے کنڈم پھیپھڑے پوچھو نکو
کون سا صابن دیئے پاشا میاں
سِر کے بالاں سب جھڑے پوچھو نکو
منع کرکے ہم کو واجدؔ گوشت سے
خود ہی کھارئیں چھیچھڑے پوچھو نکو
…………………………
بیوقوف کون ؟
٭ ایک جعلی نوٹ چھاپنے والوں کے ہاتھ سے غلطی سے 70 روپئے کا نوٹ چھپ گیا۔ انھوں نے سوچا کہ شہر کے لوگ ہوشیار ہوتے ہیں اس لئے وہ ایک قریبی دیہات میں جاکر اس نوٹ کو چُھٹا کرنے کی ٹھانی اور دیہات میں پہونچ کر ایک سادہ لوح دیہاتی دُکاندار سے اس کاچلر مانگا ۔ دیہاتی نے چلر دینے کی قیمت دس روپئے زیادہ مانگی جو اُن صاحب نے خوشی خوشی قبول کرلی اور اصلی دس دس کی نوٹ کی شکل میں دے دیئے ۔ یہ نوٹ لے کر دیہاتی نے اپنے پاس سے 35,35 کے دو نوٹ چلرس دے دیئے !
مظہر قادری ۔ حیدرآباد
…………………………
خواہش …!
٭ پرانے زمانے میں ایک ملک میں سکون ہی سکون تھا ، راجہ کے پاس کوئی بھی کسی قسم کی شکایت کرنے نہیں آتا تھا مگر راجہ کو یہ خواہش تھی کہ کوئی شکایت کرنے آئے ۔ آخر اس نے وزیر سے مشورہ کیا تو وزیر نے مشورہ دیا کہ جو آدمی بھی اپنے کام پر جائے اس سے ٹیکس وصول کیا جائے۔ چنانچہ راجہ نے ہر آدمی پر ٹیکس لگانے کے احکاما ت جاری کئے ۔ تب بھی کوئی شکایت کو نہیں آیا ۔ آخر راجہ نے ٹیکس کی رقم میں 10 فیصد اضافہ کیا تو بھی کوئی شکایت کرنے نہیں آیا ۔ آخر راجہ نے وزیر کے مشورہ پر یہ احکامات جاری کئے کہ جو بھی آدمی اپنے کام سے جائے اسے تین تین جوتے رسید کئے جائیں۔ لوگ جوتے کھاتے ہوئے خوشی خوشی اپنے اپنے کام پر جارہے تھے ۔ کچھ دنوں کے بعد آخرکار راجہ کے پاس شکایت لیکر کچھ لوگ آگئے تو راجہ کو بہت خوشی ہوئی اور ان سے پوچھا کہ کیا شکایت لے کر آئے ہو …؟ لوگوں نے جواب دیا ، جناب عالی ! ہمیں اپنے کام پر جانے میں دیری ہورہی ہے ، ہماری تعداد زیادہ ہے اور جوتے مارنے والوں کی تعداد کم ہے ۔ اسی لئے یہ درخواست لیکر آئے ہیں کہ جوتے مارنے والوں کی تعداد بڑھادی جائے تاکہ ہمیں لمبی لمبی لائین میں ٹہرکر وقت خراب کرنے کی نوبت نہ آئے اور ہمیں وقت پر اپنے اپنے کام پر جانے میں سہولت ہو ۔
سید آدِب علی۔ رامیا باؤلی ، محبوب نگر
…………………………
کہاں کا ہے ؟
٭ گاہک دکاندار سے کہتا ہے کہ جناب یہ ریڈیو آپ نے کہا تھا کہ جاپان کا ہے ؟
تو دکاندار نے کہا : ’’جی ہاں ! یہ تو جاپان کا ہی ریڈیو ہے ، دیکھئے اس ریڈیو پر بھی جاپان لکھا ہوا ہے ۔
یہ سن کر گاہک نے کہا : ’’جناب ! آپ کہہ رہے ہیں کہ یہ ریڈیو جاپان کا ہے لیکن جب میں گھر لے جاکر اسے آن کیا تو اس میں سے آواز آئی کہ ’’یہ آل انڈیا ریڈیو ‘‘ ہے ۔
بابو اکیلاؔ ۔ جہانگیر واڑہ کوہیر
…………………………