شیشہ و تیشہ

   

انورؔ مسعود
سرِ راہ…!!
اک عطائی کر رہا تھا ایک مجمع سے خطاب
یاد ہے بس ایک ٹکڑا مجھ کو اُس تقریر کا
بات کیا بانگِ درا میں شیخ سعدی نے کہی!
’’صبح کرنا شام کا لانا ہے جوئے شیر کا ‘‘
……………………………
محمد شفیع مرزا انجمؔ
غزل طنز و مزاح
برسوں سے کررہی ہے مجھے خوار کیا کریں
باتوں سے کررہی ہے کئی وار کیا کریں
ہکلا کے پڑھ رہی ہے وہ اشعار کیا کریں
کانوں کو کررہی ہے دھواں دھار کیا کریں
بیگم کی غلطیوں پہ تھپکتے ہیں اُس کی پیٹھ
سُسر اور ساس دونوں ہیں طرفدار کیا کریں
سوئے ہوئے کو نیند سے ہم نے جگادیا
جاگے ہوئے کو نیند سے بیدار کیا کریں
داماد مالداروں کے ہاتھوں میں بک گئے
مخلص و خستہ حال خریدار کیا کریں
شدت سے اُن کو سیر و تفریح کا شوق ہے
ٹکتے نہیں ہیں پیر گھر بار کیا کریں
ہیلنؔ کا رقص دیکھکر ہوتا ہوں جب بھی خوش
بیلن سے مار دیتی ہے مُردار کیا کریں
کچھ لوگ جانتے ہیں زحل کی نحوستیں
قسمت کے گردشوں کے گرفتار کیا کریں
یکسانیت حیات کو مسمار کرگئی
ایسا معاملہ ہے یہ پرچار کیا کریں
حاتم وہ بن کے پھرتے ہیں دنیا کے سامنے
لوگوں سے غریبی کا اظہار کیا کریں
…………………………
تمہیں معلوم ہے …؟
٭ ایک مشہور و معروف ڈاکٹر کے گھر کی گھنٹی رات کے 2 بجے مسلسل بجنے لگی ۔ چاروناچار ڈاکٹر صاحب نے بڑی مشکل سے اُٹھ کر دروازہ کھولا تو دیکھا کہ سامنے ایک مریض کھڑا ہے اور درد کی شدت سے کراہ رہا ہے ۔ مریض نے جیسے ہی ڈاکٹر صاحب کو دیکھا کراہتے ہوئے کہنا شروع کیا ’’ڈاکٹر صاحب ! ڈاکٹر صاحب ! مجھے کتے نے کاٹ لیاہے ‘‘ ۔
ڈاکٹر صاحب نے ناگواری کے اندازمیں غصے سے کہا ’’تمیں معلوم ہے اس وقت رات کے کتنے بج رہے ہیں ؟ ‘‘
تو مریض نے معصومیت سے کہا ’’ڈاکٹر صاحب ! مجھے تو معلوم ہے لیکن کتے کو نہیں معلوم تھا …!‘‘
مظہر قادری ۔ حیدرآباد
…………………………
خوشی کے آنسو !
٭ ایک پروفیسر صاحب اور ان کی بیوی چھت پر بیٹھے ہوئے تھے، اچانک زور کی آندھی آئی اور مکان کی چھت کو اُڑا کر لے گئی۔ جب آندھی کا زور ٹوٹا تو دونوں ایک پارک میں گر پڑے۔
پروفیسر صاحب نے بیوی کی آنکھوں میں آنسو دیکھ کر پوچھا : ’’ روتی کیوں ہو؟ خدا کا شکر ادا کرو، تمہاری اور میری جان بچ گئی۔ ‘‘
بیوی بولی: ’’ میں رو نہیں رہی ہوں، یہ تو خوشی کے آنسو ہیں کہ آج ہم تین سال بعد ایک ساتھ گھر سے نکلے ہیں۔‘‘
ابن القمرین ۔ مکتھل
……………………………
بیوقوف آدمی …!
لڑکا ( اپنے باپ سے ) ڈیڈی ! ڈیڈی ! اپنے گھر میں کوئی خوبصورت عورت آٹو رکشہ سے اُتر کر آرہی ہے ، شاید ممی سے ملنے آرہی ہوگی ؟
ڈیڈی : اچھا ! ! آئیے میڈیم آئیے ! آپ کون ہیں اور کہاں سے آرہی ہیں ، آپ کو کس سے ملنا ہے ،تشریف رکھئے !
عورت : تمہیں شرم آنی چاہئے ، بیوقوف آدمی ! مجھے ابھی تک پہچانا نہیں ، میں تمہاری بیوی ہوں اور ابھی ابھی بیوٹی پارلر سے آرہی ہوں … بیوی نے غصے سے کہا ۔
سالم جابری ۔ آرمور
…………………………
بدتمیز…!
٭ ماہر تحریر کے پاس ایک بوڑھی عورت کسی بچے کی تحریر لائی ۔ ماہر تحریر نے غور سے اس تحریر کو دیکھنے کے بعد کہا
’’محترمہ ! شائد آپ اس بچے کی ماں ہیں ، مگر میں صاف کہہ دیتا ہوں کہ یہ بچہ انتہائی فضول خرچ اور بدتمیز ہے ۔ بڑا ہوکر یہ کوئی اچھا کام نہ کرسکے گا ‘‘۔
اس پر بوڑھی عورت بولی ’’مگر یہ تو تمہارے بچپن کی تحریر ہے اور شاید تم بھول گئے ہوکہ میں تمہیں پڑھایا کرتی تھی ‘‘۔
سید احمد خان ۔ ہمایوں نگر
…………………………