شیشہ و تیشہ

   

انورؔ مسعود
حریفِ سُخن
تجھے ہے شوق بہت مجھ سے بیت بازی کا
یہ سوچ لے مرے پندار سے اْلجھتے ہوئے
شکست ترا مقدر ہے بے خبر کہ مجھے
ہیں شعر یاد بہت لاریوں میں لکھے ہوئے
……………………………
فرید سحرؔ
کووڈ…!!
آگیا کووڈ کا یہ کیسا مرض
ناک میں دم کرکے ہے رکھا مرض
بند اچھے اچھوں کی ہے بولتی
خوف دل میں ڈالا ہے ایسا مرض
گر طبیعت پوچھنے آئے کوئی
ان کے گھر میں گُھس کے جا بیٹھا مرض
ڈاکٹر بھی ہیں پریشاں اب بہت
کیفیت اُن کی بھی جو پُوچھا مرض
لیڈروں کا حال بھی مت پُوچھئیے
قبر ان کی بھی تو ہے کھودا مرض
آرزو اب ہر بہو کی ہے یہی
ساس کو اس کی ہو کووڈ کا مرض
روز ہم مسجد کو جب جانے لگے
دُم دبا کر دیکھ لو بھاگا مرض
ساری دُنیا کہہ رہی ہے اب یہی
اس سے بڑھ کر ہے نہیں تگڑا مرض
کام اک اچھا کیا اُس نے مگر
ہم کو کاموں سے بُرے روکا مرض
ناز تھا دولت پہ جن کو دوستو
ان کو بھی اچھا دیا دھکہ مرض
شعر اب پڑھنا ہے مشکل ائے سحرؔ
مُنہ پہ جو چھینکا لگا رکھا مرض
…………………………
کتنے پیسے ہوں گے ؟
مریض ڈاکٹر سے : ڈاکٹر صاحب ! مجھے پلاسٹک سرجری کرانا ہے کتنے پیسے ہوں گے ؟
ڈاکٹر : صرف بیس ہزار 20,000/- روپئے
مریض : ڈاکٹر صاحب ! اگر پلاسٹک میں لادوں تو …؟
ڈاکٹر : تو پھر گرم کرکے بھی تم ہی چپکالو …!
محمد حامداﷲ ۔ حیدرگوڑہ
…………………………
ایک روز میں…
٭ مرزا رفیع سوداؔ اردو کے بڑے نامور شاعر تھے۔ بادشاہ شاہ عالم نے جب انکی شاگردی اختیار کی تو ایک روز سودا ؔسے کہا کہ آپ ایک روز میں کتنی غزلیں کہہ لیتے ہیں۔
سوداؔ نے جواب دیا کہ وہ ایک دن میں دو چار شعر کہہ لیتے ہیں۔یہ سن کر بادشاہ نے کہا، واہ استادِ محترم، ہم تو پاخانے میں بیٹھے بیٹھے چار غزلیں کہہ لیتے ہیں۔
سوداؔ نے جواب میں کہا: ’’حضور ان غزلوں میں بُو بھی ویسی ہی ہوتی ہے‘‘۔
یہ کہا اور بادشاہ کے پاس سے چلے آئے اور بعد میں بادشاہ کے بار بار بلاوے پر بھی اسکی خدمت میں نہ گئے۔
ابن القمرین ۔ مکتھل
………………………
لائیسنس …!
٭ تین دوست الگ الگ موٹر سائیکلوں پر سیر کیلئے نکلے ۔ راستے میں ٹرافک انسپکٹر نے ان کا راستہ روکا اور پوچھا … اپنے اپنے ڈرائیونگ لائیسنس دکھاؤ ۔
یہ سنتے ہی اُن میں سے ایک دوست نے اپنی موٹر سائیکل گھماکر بھاگا ۔ ٹرافک انسپکٹر نے بھی اپنی موٹر سیکل جلدی سے اسٹارٹ کرکے اُس کا پیچھا کرتے کرتے آخر پکڑ ہی لیا۔
پکڑے جانے کے بعد اُس (دوست) نے اپنا لائیسنس نکال کر دکھایا ۔
ٹرافک انسپکٹر نے تعجب سے کہا : ’’لائیسنس تھا تو تم بھاگے کیوں ؟ ‘‘اُس ( دوست ) نے کہا : کیونکہ میرے باقی دونوں ساتھیوں کے پاس لائیسنس نہیں تھے…!
زاہد حسین قندھارکر ۔ ریاست نگر
………………………
خوداعتمادی…!
٭ ایک دفعہ ایک یونیورسٹی کے 6 پروفیسرس کو بلایا گیا اور اُن سے کہا گیا کہ ایک ہیلی کاپٹر میں بیٹھئے ۔ بیٹھنے کے بعد انھیں بتایا گیا کہ یہ ہیلی کاپٹر کو آپ کے طالب علموں نے بنایا ۔ یہ سن کر سارے پروفیسر اُترکر بھاگ گئے ، سوائے ایک پروفیسر کے۔ لوگوں نے اُن سے دریافت کیا کہ آپ کی اپنے طالب علموں پر اعتماد کی کیا وجہ ہے ؟
انھوں نے جواب دیا ’’اگر یہ میرے شاگردوں کا بنایا ہوا ہے تو یہ اسٹارٹ بھی نہیں ہوگا …!!
سلطان قمرالدین خسرو ۔ مہدی پٹنم
………………………