شیوسینا ۔ بی جے پی اتحاد

   

سانپوں کا زہر اتنی ہلاکت نہیں رکھتا
جتناکہ میرے دوست کی باتوں میں رکھا ہے
شیوسینا ۔ بی جے پی اتحاد
رائے دہندوں کو احمق سمجھنے یا بنانے میں ملکہ رکھنے والی پارٹیوں میں آپسی سیاسی مفادات کا تحفظ ہوتا ہے۔ موقع پرستی کے چولہے پر اپنی روٹیاں سینکنے والی پارٹیوں میں بی جے پی، شیوسینا کو سرِفہرست قرار دیا جائے تو اس میں کوئی دو رائے نہیں ہوگی۔ اپنے حریفوں کو شکست کے در پر رکھنے کیلئے اپنے سیاسی کھیلوں کو پوری مہارت سے کھیلتے رہنے والی بی جے پی اور شیوسینا نے آنے والے لوک سبھا انتخابات کے لئے نشستوں کی تقسیم کے ذریعہ اتحاد کرنے کا احیاء کرلیا ہے۔ سیاسی قمست آزمائی کے اس بڑے جوے میں بی جے پی۔ شیوسینا کو2019 کے لوک سبھا انتخابات میں اپنی بقاء کے لئے کسی بھی حد تک جاتے دیکھا جاسکتا ہے۔ مہاراشٹرا میں کانگریس اور نیشنلسٹ کانگریس ( این سی پی ) کے سیاسی امکانات کو کمزور کرنے کے لئے شیوسینا ۔ بی جے پی کا اتحاد ہوسکتا ہے کہ کچھ رنگ لائے گا ، لیکن اتحاد کرنے والی ان پارٹیوں نے گذشتہ پانچ سال کے دوران ایک دوسرے پر تنقیدوں کے لئے کوئی موقع ضائع نہیں کیا۔ شیوسینا نے تو بی جے پی کو ہر مسئلہ پر سخت تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ اب دونوں نے ممبئی کی ہاؤزنگ فینانس کمپنی اسکام اور رافیل معاہدہ کو کنارہ پر رکھ کر اتحاد کا بگل بجادیا ہے۔ مہاراشٹرا کی 48 لوک سبھا نشستوں پر بی جے پی ۔ شیوسینا اتحاد بھی اتنا اہم ہے جتنا کانگریس ‘ این سی پی کیلئے ہے۔ شرد پوار اور راہول گاندھی جیسے قائدین کے سامنے اب مشترکہ طور پر شیوسینا ۔ بی جے پی اتحاد کا مقابلہ کرنے کے سوا کوئی راستہ باقی نہیں رہ جاتا ۔ کیونکہ2014 کے انتخابات میں ان تمام پارٹیوں نے تنہا مقابلہ کرکے اپنے سیاسی وزن کو منقسم کرلیا تھا۔ مہاراشٹرا کی 288 رکنی اسمبلی کے لئے جب ان تمام پارٹیوں نے تنہا مقابلہ کیا توعوام کی رائے بھی منقسم ہوگئی تھی۔مابعد انتخابات شیوسینا ۔ بی جے پی اتحاد ہوا ، لیکن اس اتحاد کے باوجود شیوسینا نے بی جے پی کو ہر قدم پر نکتہ چینی کے ذریعہ اپنی حلیف پارٹی کے خلاف رائے عامہ کو متحرک کرنے کی کوشش کی تھی ۔ اب انتخابات سے قبل رائے دہندوں کو بے وقوف بنایا جارہا ہے۔ گذشتہ پانچ سال کے دوران شیوسینا۔ بی جے پی اتحاد خوشیوں سے عاری تھا۔ ہندوتوا کا پریوار بدترین نہ سہی معمولی طور پر پھوٹ کا شکار تھا۔ عوام کے سامنے بظاہر یہ پارٹیاں ایک دوسرے کے خلاف ہونے کا ثبوت دیتی رہیں لیکن اندر ہی اندر ان کا نظریاتی اتحاد برقرار رہا ہے۔شیوسینا کے قائدین مسلسل صدر بی جے پی امیت شاہ کو بُرا بھلا کہتے رہے ہیں۔ اب یہی صدر بی جے پی نے اپنی پارٹی کی 20 سال قدیم دوستی کا احیاء کرتے ہوئے جنگ بندی کا اعلان کیا ہے۔ بی جے پی کو 48 لوک سبھا حلقوں کے منجملہ 25 نشستوں اور شیوسینا کو 23 نشستوں پر مقابلہ کرنے کا سمجھوتہ کرلیا گیا۔ مہاراشٹرا کے اسمبلی انتخابات میں بھی دونوں کا اتحاد رہے گا اور اگر اتحادی پارٹیوں کو کامیابی ملی تو شیوسینا کے صدر ادھوٹھاکرے کے نوجوان فرزند آدتیہ ٹھاکرے کو چیف منسٹر کا عہدہ دیئے جانے کا وعدہ لیا گیا ہے۔ شیوسینا کے لئے بی جے پی سے یہ اتحاد گھاٹے کا سودا نہیں ہے کیونکہ اس کو 2014 کے اسمبلی انتخابات میں تنہا مقابلہ کرنے سے صرف 63 نشستیں ملی تھیں جبکہ بی جے پی نے 122 نشستوں پر کامیابی حاصل کی تھی۔ مہاراشٹرا میں شیوسینا کے بانی صدر بال ٹھاکرے کے گھرانے کے اندر نئی نسل کو اہم سیاسی ذمہ داریاں دینے کے لئے کوششیں ہورہی ہیں۔ بال ٹھاکرے کی رہائش گاہ ’ ماتو شری ‘ ایک اہم فیصلہ سازمرکز ہے جہاں آر ایس ایس کی قیادت بھی ماتھا ٹیکتی ہے تو اس ’ ماتو شری ‘ سے نکلنے والے فرمان پر عمل کرنا ناگپور کے آر ایس ہیڈکوارٹرس کا فرض بن جاتا ہے ، اس لئے صدر آر ایس ایس موہن بھاگوت نے ماتو شری فون کرکے بی جے پی سے اتحاد کی اپیل کی ‘ اس کے عوض ٹھاکرے خاندان کی نئی نسل کو مہاراشٹرا کے ’ منترالیہ ‘ پہنچانے کا وعدہ کیا گیا۔ یہ پارٹیاں اپنی نسلیں فروغ دے رہی ہیں اور عوام کو بے وقوف بناتی رہی ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ آیا 2019 میں بھی رائے دہندے بے وقوف بن کر ووٹ دیں گے؟