صبر و عزیمت پیغمبران کرام علیہم السلام کی سنت

   

سکھ دکھ، رنج و شادمانی، صحت و بیماری اور راحت و تکلیف انسانی زندگی کے دو متضاد پہلو اور لازمی اجزاء ہیں۔ کوئی فرد بشر مصائب و آلام، تکالیف اور حوادث زمانہ سے محفوظ نہیں، زندگی کے کسی نہ کسی موڑپر انسان کو ان سے ضرور سابقہ پڑتا ہے۔ کسی کو ان سے مفر نہیں، اس لئے کہ یہ دنیا اجر و ثواب کا مقام نہیں، بلکہ صرف آزمائش و ابتلاء کی جگہ ہے۔ انسان کی تخلیق کی غرض و غایت ہی اس کی آزمائش اور امتحان ہے کہ وہ اس دنیائے فانی میں خوشحالی و فراوانی اور تنگی و مفلسی میں اللہ تعالی کے بتائے ہوئے راستے پر قائم رہتا ہے یا نہیں۔ارشاد الہی ہے: ’’وہی ہے جس نے موت اور حیات کو پیدا کیا، تاکہ تم کو آزمائے کہ تم میں عمل کے اعتبار سے کون اچھا ہے‘‘۔(سورۃ الملک۔۲)
صبر اور شکر دو عظیم صفات ہیں، دونوں بھی عبدیت اور بندگی کی علامتیں ہیں۔ جب اللہ سبحانہ و تعالی کسی بندے کو انعامات سے سرفراز فرماتا ہے، بیوی بچے، دھن دولت، عزت و شہرت، اقتدار و حشمت سے نوازتا ہے تو وہ درحقیقت اللہ تعالی کی جانب سے آزمائش اس معنی میں ہے کہ وہ خدا کی نعمتوں پر شکر گزار ہوتا ہے یا ان نعمتوں میں کھوکر اللہ تعالی سے غافل ہو جاتا ہے۔ اگر وہ شکر گزاری کرتا ہے تو مزید نعمتوں سے سرفراز کیا جاتا ہے اور ناشکری کرتا ہے تو اس کیلئے اللہ تعالی کے پاس دردناک عذاب تیار ہے۔ ارشاد الہی ہے: ’’اور (یاد کرو) جب تمہارے رب نے آگاہ فرمایا کہ اگر تم شکر کروگے تو میں تم پر (نعمتوں میں) ضرور اضافہ کروں گا اور اگر تم ناشکری کروگے تو میرا عذاب یقیناً سخت ہے‘‘۔ (سورہ ابراہیم)
اسی طرح دوسرے بندوں کو اللہ تعالی مال و دولت سے محروم کرکے آزماتا ہے، فقر و فاقہ میں مبتلاء کرتا ہے، جسمانی بیماریوں میں گرفتار کردیتا ہے، کبھی مالدار کو تنگدست و مفلس بنا دیتا ہے اگر وہ اس میں صبر کے دامن کو تھامے رہتے ہیں تو اللہ تعالی ایسے محبوب و مقرب بندوں کو اپنی خصوصی معیت سے سرفراز فرماتا ہے۔
اللہ تعالی کا ارشاد ہے: ’’یقیناً اللہ سبحانہ و تعالی صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے‘‘۔اللہ تعالی خیر و شر، نیکی اور برائی، نعمت اور زحمت دونوں طریقوں سے آزماتا ہے۔ لوگ صرف تکلیف و مصیبت ہی کو آزمائش سمجھتے ہیں۔ اللہ تعالی کا ارشاد ہے: ’’ہم تم کو برائی اور بھلائی میں آزمائش کے لئے مبتلاء کرتے ہیں اور تم ہماری ہی طرف پلٹائے جاؤ گے‘‘۔ (سورۃ الانبیاء۔۳۵)
اللہ تعالی کی آزمائش مختلف نوعیت کی ہوتی ہے۔ ارشاد ہے: ’’اور ہم ضرور بہ ضرور تم کو آزمائیں گے، کچھ خوف اور بھوک سے اور کچھ مالوں اور جانوں اور پھلوں کے نقصان سے اور آپ ان صبر کرنے والوں کو خوش خبری سنادیں جن پر کوئی مصیبت پڑتی ہے تو وہ کہتے ہیں بے شک ہم بھی اللہ ہی کے لئے ہیں اور ہم اسی کی طرف لوٹنے والے ہیں۔ یہی وہ لوگ ہیں، جن پر ان کے رب کی طرف سے پے در پے نوازشیں ہیں اور رحمت ہے اور یہی لوگ ہدایت یافتہ ہیں‘‘۔(سورۃ البقرہ)
ارشاد فرمایا: ’’(اے مسلمانو!) تمھیں ضرور بہ ضرور تمہارے اموال اور تمہاری جانوں میں آزمایا جائے گا اور تمھیں بہرصورت ان لوگوں نے جنھیں تم سے پہلے کتاب دی گئی تھی اور ان لوگوں سے جو مشرک ہیں بہت سے اذیت ناک (طعنے) سنے ہوں گے اور اگر تم صبر کرتے ہو اور تقویٰ اختیار کئے رکھو تو یہ بڑی ہمت کے کاموں میں سے ہے‘‘۔ (سورہ آل عمران۔۱۸۶)
رنج و غم، تکلیف و اذیت، دکھ و بیماری جزو زندگی ہے۔ اللہ تعالی کا ارشاد ہے: ’’ہم نے انسان کو مشقت میں (مبتلا رہنے والا) پیدا کیا‘‘ (سورۃ البلد۔۴) اور جب مؤمن کو یقین کامل ہو جاتا ہے کہ انسان کو اس دنیا میں جو بھی سکھ دکھ، اور رنج و غم پہنچتا ہے، وہ اس کی تخلیق سے بہت پہلے ہی لکھا جاچکا ہے، جو ہر حال میں واقع ہونے والا ہے، خدا کی تقدیر چوکنے والی نہیں ہے تو اس کے لئے یہ زندگی آسان ہوجاتی ہے۔ وہ خوشی میں نہ اتراتا ہے اور نہ ہی غم میں رنجیدہ ہوتا ہے۔ اسی فکر کو مؤمنین کے دل و دماغ میں راسخ کرنے کیلئے قرآن اعلان کرتا ہے: ’’کوئی بھی مصیبت نہ تو زمین میں پہنچتی ہے اور نہ ہی تمہاری جانوں میں، مگر یہ کہ وہ ایک کتاب (لوح محفوظ) میں قبل اس کے کہ ہم ان کو پیدا کریں موجود و مکتوب ہے۔ بے شک یہ اللہ تعالی پر بہت ہی آسان ہے، تاکہ تم اس چیز پر غم نہ کرو جو تمہارے ہاتھ سے جاتی رہی اور اس چیز پر نہ اتراؤ جو اس نے تمھیں عطا کی ہے اور اللہ کسی تکبر کرنے والے، فخر کرنے والے کو پسند نہیں کرتا‘‘۔ (سورۃ الحدید)
جس قدر ایمان میں پختگی ہوتی ہے، اسی قدر امتحان و آزمائش میں شدت ہوتی ہے۔ تمام انبیاء کرام علیہم السلام شدید ترین آزمائشوں سے گزرے۔ قوموں کی نفرت و عداوت، ظلم و زیادتیوں کو برداشت کئے، مختلف صبر آزما حالات سے دو چار ہوئے۔ وہ ہر امتحان میں کھرے اترے، صبر و استقامت کے دامن کو تھامے رہے اور ساری دنیا کے لئے مشکل حالات میں ثابت قدم رہنے کی بہترین مثال قائم کرگئے۔ اللہ سبحانہ و تعالی نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو تسلی دیتے ہوئے صبر کی تلقین کی: ’’اور (اے حبیب مکرمﷺ) صبر کیجئے اور آپ کا صبر کرنا اللہ ہی کے ساتھ ہے اور آپ ان (کی سرکشی) پر رنجیدہ خاطر نہ ہوں اور آپ ان کی فریب کاریوں سے (اپنے کشادہ سینہ میں) تنگی (بھی) محسوس نہ کیا کریں۔ بے شک اللہ تعالی ان لوگوں کو اپنی معیت (خاص) سے نوازتا ہے، جو متقی ہیں اور وہ جو احسان کرنے والے ہیں‘‘۔ (سورۃ النحل۔۱۲۸)
ابولہب کی بیوی ام جمیل نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی چچی ہونے کے باوجود درختوں کی ٹہنیاں لاتی اور آپﷺ کے راستے میں ڈال دیتی۔ جب آپﷺ اندھیرے میں تشریف لاتے تو آپ کو تکلیف پہنچتی۔ خود ابولہب آپﷺ کے مکان کے دروازے پر اور راستے میں گندگی اور غلاظت پھینک دیتا۔ ایک دن آپ کے دوسرے چچا حضرت حمزہ رضی اللہ تعالی عنہ نے دیکھ کر ملامت کی اور اس کی لائی ہوئی غلاظت اسی کے سرپر انڈیل دی۔ ابولہب نے دوسروں کو اجرت دے کر اس کام کو جاری رکھنے پر مامور کیا۔ بارہا رؤسائے قریش کی شہہ پر آوارہ مزاج لڑکے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو راستے میں پتھر مارتے، آپﷺ کا مذاق اڑاتے اور طرح طرح سے تنگ کرتے۔ ایسی صورت میں کئی مرتبہ آپﷺ ابو سفیان کے گھر میں داخل ہو گئے اور یہ شریف دشمن لڑکوں کو اپنے گھر سے دفع کردیتا۔ ابن جوزی کے مطابق فتح مکہ کے موقع پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ کا یہ ارشاد کہ ’’جو ابو سفیان کے گھر میں داخل ہو، اسے امان ہے‘‘ اسی حسن سلوک پر سرفرازی تھی۔
الغرض صبر اور شکر پیغمبرانہ اوصاف ہیں۔ خوشحالی میں شکر گزاری ہونی چاہئے اور آزمائش میں صبر و تحمل اور عزم و استقلال پر عمل پیرا ہونا چاہئے، جب کہ یہ دونوں انسانی زندگی کے جزء لاینفک ہیں۔ بطور خاص آزمائشوں اور صبر آزما لمحات میں ثابت قدم رہنا ہی ایمان کامل کی علامت ہے اور اس کا پھل نہایت ہی حسین ہے۔ جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نبوت کے بار عظیم کو لے کر اٹھے تو ایک شخص بھی آپ کے ہمراہ نہ تھا، مگر آپﷺ کو اپنی منزل کی طرف بڑھنے میں قطعاً کوئی تذبذب نہ ہوا۔ زندگی مبارک میں کئی مواقع ایسے آئے، جب آپﷺ نے آہنی اور غیر متزلزل عزم و استقلال کا مظاہرہ فرمایا۔
ایک موقع پر بعض صحابہ کرام نے دشمنوں کی عداوت اور ایذا رسانی سے تنگ آکر آپﷺ سے دعاء کی درخواست کی تو آپﷺ نے جواب میں فرمایا ’’تم سے پہلے جو لوگ گزرچکے ہیں، ان کے جسموں پر آہنی کنگھیاں چلائی جاتی تھیں اور کھال کو جسم سے الگ کردیا جاتا تھا، مگر وہ دین سے برگشتہ نہ ہوئے۔ بخدا دین اسلام اپنے منتہائے کمال کو پہنچ کر رہے گا، تاآنکہ صنعاء سے حضر موت تک جانے والا مسافر خدا کے سوا کسی سے نہیں ڈرے گا‘‘۔ (بخاری و ابوداؤد)