ضمنی انتخابات کے نتائج

   

ملک بھر میںاسمبلی کی دو درجن سے زیادہ اور لوک سبھا کی تین نشستوں کیلئے مختلف ریاستوںمیں ضمنی انتخابات ہوئے ۔ ان انتخابات میں بی جے پی کو عوام کی برہمی اورناراضگی کا شائد پہلی مرتبہ کچھ اندازہ ہوا ہو کیونکہ بیشتر مقامات پر بی جے پی کو بھاری شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے اور جہاں کہیں اسے ایکا دوکا کامیابی ملی ہے وہ مقامی امیدوار کی شخصیت کا نتیجہ رہی ہے ۔ ہماچل پردیش میں جہاں بی جے پی برسر اقتدار ہے پارٹی کو اسمبلی کی چار اور لوک سبھا کی ایک نشست پر کراری شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے اور یہاں تمام نشستوں پر کانگریس امیدواروں نے کامیابی حاصل کی ۔ اسی طرح ہریانہ میں بھی جہاں بی جے پی کی منوہر لال کھٹر حکومت ہے کانگریس نے ایک نشست پر ہوئے انتخاب میں کامیابی حاصل کرلی ۔ کرناٹک میں جہاں بی جے پی پچھلے دروازے سے اقتدار پر آگئی تھی اسے چیف منسٹر کے گڑھ سمجھے جانے والے حلقے میںشکست کا سامنا کرنا پڑا اور یہ نشست کانگریس نے جیت لی۔ مغربی بنگال میں بی جے پی کو مزید بری صورتحال کا سامنا کرنا پڑا ۔ چار حلقوںپر ہوئے ضمنی انتخاب میں ترنمول کانگریس کو تمام نشستوں پر کامیابی ملی جبکہ تین حلقوں میں بی جے پی کی ضمانت تک بھی نہیں بچ پائی ہے ۔ اسی طرح بہار میںدو حلقوںپر جے ڈی یو کو کامیابی ملی ہے جہاں کانگریس اور آر جے ڈی کے درمیان اتحاد نہیں ہو پایا تھا ۔ اگر یہاں آر جے ڈی کی خواہش کے مطابق کانگریس ان حلقوںسے اپنے امیدوار نامزد نہیں کرتی تو یہاں بھی جے ڈی یو کو شکست کاسامنا کرنا پڑتا ۔ شیوسینا نے ‘ جو طویل عرصہ تک بی جے پی کی حلیف رہی تھی ‘ مہاراشٹرا کے باہر پہلی کامیابی حاصل کی ہے اور دادرا و نگر حویلی کی لوک سبھا نشست پر اس نے شاندار کامیابی حاصل کرلی ۔ہماچل پردیش میںمنڈی لوک سبھا حلقہ بھی کانگریس کے حق میں رہا جبکہ ترنمول کانگریس نے بھی لوک سبھا کی ایک نشست جیت لی ہے ۔ اس طرح بحیثیت مجموعی اپوزیشن جماعتوں کو ضمنی انتخاب میں عوامی تائید حاصل رہی ہے۔ بی جے پی بیشتر ریاستوں اور مرکز میں اقتدار میںرہتے ہوئے بھی شکست سے دوچار ہوگئی ۔
ضمنی انتخابات میں بھی بی جے پی نے کامیابی حاصل کرنے کے کئی ہتھکنڈے اختیار کئے اور طاقت کا استعمال کیا اس کے باوجود عوام نے اس کا ساتھ دینے سے گریز کیا ہے ۔ عام تاثر یہی پایا جاتا ہے کہ تین زرعی قوانین اور پٹرول‘ ڈیزل اور گیس کی بڑھتی ہوئی قیمتوں پر عوام نے حکومت سے اپنی ناراضگی کا اظہار کردیا ہے اور یہ آئندہ سال ہونے والے اترپردیش سمیت پانچ ریاستوں اوراس کے بعد ہونے والے عام انتخابات کیلئے ایک مثال بن سکتے ہیں۔ جس طرح سے اپوزیشن جماعتوں نے عوامی تائید حاصل کی ہے اسے برقرار رکھنے اور بنیادی اور اہمیت کے حامل مسائل کو اجاگر کرتے ہوئے عوام کے درمیان لانے کی ضرورت ہے ۔ اس کے علاوہ اپوزیشن جماعتوں کے درمیان اتحاد بھی ضروری ہوگیا ہے کیونکہ بہار میں دو نشستوںپر جے ڈی یو کو اسی لئے کامیابی حاصل ہوئی کیونکہ کانگریس نے وہاں آر جے ڈی کا ساتھ دینے سے گریز کیا تھا ۔ اپوزیشن جماعتوںکو ایک حکمت عملی بنانے کی ضرورت ہے ۔ مقامی اور علاقائی سطح پر اثر رکھنے والی جماعتوں کے حق میں دوسری جماعت کو دستبردار ہونے میں کسی پس و پیش کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہئے ۔ فراخدلی اور ایک ایجنڈہ کے تحت سبھی جماعتوں میں اشتراک کرنے کی ضرورت ہے ۔ بی جے پی کو شکست دینے کیلئے اپوزیشن کی صفوںمیں اگر اتحاد نہیں ہوتا ہے تو پھر نتائج بھی توقعات کے مطابق حاصل نہیں ہوسکتے ۔ عوامی مسائل کو اجاگر کرنے کیلئے ایک مشترکہ پروگرام اور منصوبہ تیار کیاجانا چاہئے ۔
جہاں تک بی جے پی کی بات ہے تو اسے یہ سمجھ لینا چاہئے کہ صرف پروپگنڈہ اور تشہیر کے سہارے کامیابی حاصل نہیں کی جاسکتی ۔ ساتھ ہی حکومت کے من مانی فیصلے بھی عوام پر مسلط کرنے پر عوام رد عمل کا اظہار اپنے ووٹ کے ذریعہ کرسکتے ہیں۔عوام کی نبض کو سمجھے بغیر صرف مخصوص حلقوں اور گوشوںکو خوش و مطمئن کرنے اور عوام کو محض گمراہ کرنے اورسبز باغ دکھاتے ہوئے ان کی تائید حاصل کرنا آسان نہیں رہ جائیگا ۔فرقہ پرستی اورجنونیت کے ذریعہ بھی عوام کو زیادہ وقت تک گمراہ نہیں کیا جاسکتا ۔ خاص طور پر مہنگائی نے اب عوام پر اثر کرنا شروع کردیا ہے اور اس بات کا مرکزی حکومت کو خاص طور پر نوٹ لینا چاہئے ۔