ضمیر ان کے بڑے داغدار نکلیں گے

   

ہٹلر کا نازی ازم… مودی کا ہندو ازم
آسام میں دینی مدارس نشانہ … علماء و قائدین کی بے حسی

رشیدالدین
ہٹلر کے نازی ازم کی طرح ہندوستان میں ان دنوں مودی کا ہندو ازم عروج پر ہے۔ زندگی کے ہر شعبہ میں ہندوتوا کو عام کرتے ہوئے نریندر مودی 2024 ء تک ملک کو ہندو راشٹر میں تبدیل کرنے کا خواب دیکھ رہے ہیں۔ یوں تو ہر خواب کا پورا ہونا ضروری نہیں لیکن مزاحمتی طاقتوں کے کمزور ہوجانے سے جارحانہ فرقہ پرست طاقتوں کے حوصلے بلند ہوچکے ہیں ۔ مرکز میں دوسری میعاد اور اہم ریاستوں میں برسر اقتدار آنے کے بعد ہندوتوا طاقتوں کے تیور کچھ زیادہ بدل چکے ہیں ۔ قانون ، دستور حتیٰ کہ عدلیہ کا بھی کوئی پاس و لحاظ باقی نہیں رہا۔ جو عہدیدار بھی ہندوتوا ایجنڈہ کے استحکام کے لئے کام کرنے سے انکار کرے ، اسے تبدیل کردیا جاتا ہے، حتیٰ کہ ججس بھی خود کو غیر محفوظ تصور کرنے لگے ہیں۔ حکومت کے خلاف اٹھنے والی ہر آواز کو دبانے کیلئے ملک سے غداری کا لیبل لگادیا جاتا ہے ۔ ایسا محسوس ہورہا ہے جیسے ملک پر مجاہدین آزادی کی حکمرانی ہے جنہوں نے آزادی کیلئے قربانیاں دی تھیں۔ ملک کی آزادی کیلئے جان و مال کی قربانی دینے والوں کے خاندان کسمپرسی کی حالت میں ہیں جبکہ انگریزوں کے لئے کام کرنے والوں کے وارث آج اقتدار پر ہیں۔ ہندوتوا کی طاقتوں کے نزدیک جن کا شمار ہیروز کے طور پر ہوتا ہے ، انہوں نے انگریزوں سے تحریری معذرت خواہی کی تھی ۔ ملک کیلئے جانوں کا نذرانہ پیش کرنے والے گمنام ہوگئے لیکن جن کا دور دور تک آزادی کی لڑائی سے تعلق نہیں وہ اقتدار کے مزے لوٹ رہے ہیں۔ یہ طاقتیں ملک کو اپنی جاگیر تصور کر رہی ہیں اور جیسے کہ ہندوستان پر ان کا کاپی رائیٹ ہو۔ بے لگام ان طاقتوں کی مزاحمت کرنے والے کمزور ہوچکے ہیں جس کے نتیجہ میں نہ صرف مرکز بلکہ زیر اقتدار ریاستوں میں من مانی قوانین وضع کرتے ہوئے مسلمانوں کا عرصہ حیات تنگ کرنے کی سازش کی جارہی ہے ۔

بی جے پی کا ماننا ہے کہ دنیا میں مسلم اور اسلامی مملکتیں ہوسکتی ہیں تو ہندو اکثریتی آبادی والا ہندوستان ہندو راشٹر کیوں نہیں بن سکتا۔ سماج میں نفرت کا زہر گھول دیا گیا تاکہ اکثریت اور اقلیت کے درمیان خلیج بڑھتی رہے۔ نامور جہد کار ہرش مندر نے کہا کہ مودی نے ہندوؤں میں نفرت کا زہر نشے کی طرح گھول دیا ہے۔ ظاہر ہے کہ نشہ کا عادی شخص ہر مسئلہ کو اپنے نشہ پر قربان کردیتا ہے ۔ بیروزگاری ، مہنگائی ، معاشی بدحالی اور بیماری جیسے مسائل سے ملک دوچار ہے لیکن نفرت کا نشہ کچھ اس طرح حاوی ہے کہ سب کچھ ناکامیوں کے باوجود مودی اولین پسند کے طور پر برقرار ہیں۔ مسلمانوں کے حوصلے پسند کرنے کیلئے شریعت اور عبادتگاہوں کو نشانہ بنایا جارہا ہے ۔ کبھی گاؤ کشی تو کبھی لو جہاد کے نام پر نہتے مسلمانوں کو نشانہ بنایا گیا تو کبھی خواتین سے انصاف اور ہمدردی کے نام پر شریعت میں مداخلت کی گئی ۔ گزشتہ 6 برسوں کے دوران بارہا مسلمانوں کے صبر کا امتحان لیا گیا لیکن افسوس ہر امتحان میں مسلمان اور ان کی قیادتیں ناکام ثابت ہوئیں۔ ہمیں وہ دور بھی یاد ہے جب بیت المقدس میں یہودیوں نے آگ لگائی تھی تو حیدرآباد میں تاریخی احتجاج کیا گیا تھا ۔

دنیا کے کسی بھی حصہ میں اسلام اور مسلمانوں پر کوئی بری نظر بھی ڈالتا تو ہندوستان کے مسلمان اس کی تڑپ کو محسوس کرتے اور بے چین ہوجاتے تھے لیکن اب تو مسلمانوں کی جماعتیں ، تنظیمیں اور قائدین حکومت کے آلہ کار بنے ہوئے ہیں۔ دولت کی فراوانی اور آمدنی کے غیر قانونی ذرائع اختیار کرنے کے نتیجہ میں حکومت کا خوف طاری ہے۔ دولت کے تحفظ اور سرکاری اداروں کی کارروائیوں سے بچنے کیلئے حکومت کے اشارہ پر کام کرنے کے لئے مجبور ہیں۔ ظاہر ہے کہ جب سیاسی اور مذہبی قیادتیں حکومت کی اسیر بن جائیں تو پھر قوم سے انقلاب کی امید کرنا فضول ہوگا۔ لو جہاد کے نام پر بی جے پی ریاستوں میں قانون سازی کا سلسلہ چل پڑا ہے ، دوسری طرف آسام میں دینی مدارس کو بند کرنے کا قانون منظور کیا گیا۔ دینی مدارس ہمیشہ ہی فرقہ پرست طاقتوں کی آنکھوں میں کھٹکتے رہے ہیں۔ دینی مدارس کو دہشت گردی کے مراکز سے تعبیر کیا گیا ۔ دینی مدارس میں سرکاری نصاب متعارف کرنے کی مہم شروع کی گئی تاکہ دینی مدارس کے طلبہ کی زبان پر وندے ماترم اور جن گن من آجائے ۔ دینی مدارس کے علاوہ مسلمانوں کی جانب سے قائم کئے جانے والے تعلیمی اداروں سے بھی بی جے پی کو نفرت ہے ۔ اترپردیش میں اعظم خاں کی جانب سے قائم کردہ یونیورسٹی کو بند کرنے کیلئے اعظم خاں کو جیل بھیج دیا گیا ۔ مسلمانوں اور ان کے قائم کردہ اداروں سے نفرت کا مقصد ملک کی دوسری بڑی اکثریت کو محکوم اور دوسرے درجہ کا شہری بنانا ہے ۔ آسام اور اترپردیش مخالف مسلم سرگرمیوں کی تجربہ گاہیں ہیں جہاں کے فیصلوں سے ملک بھر کے حالات کا تجزیہ کیا جاتا ہے ۔

آسام میں این آر سی پر عمل کرتے ہوئے لاکھوں مسلمانوں کی شہریت کو ختم کیا گیا اور رائے دہی کے حق سے مسلمان محروم ہوگئے ۔ اب دینی مدارس کو نشانہ بنایا گیا ۔ افسوس کہ آسام میں مسلمانوں کی نمائندگی کا دم بھرنے والے بدرالدین اجمل کی یونائٹیڈ ڈیموکریٹک فرنٹ نے اس فیصلہ کے خلاف کوئی مزاحمت نہیں کی۔ اتنا ہی نہیں دیگر مسلم جماعتوں اور تنظیموں کے قائدین مہر بہ لب ہیں۔ قیادتوں اور جماعتوں پر بے حسی کا یہ سناٹا آخر کیوں ہے ؟ بی جے پی 2021 ء میں مغربی بنگال کے بعد آسام الیکشن پر توجہ مرکوز کرے گی ۔ امیت شاہ دونوں ریاستوں کا بار بار دورہ کر رہے ہیں۔ آسام کو بی جے پی کے قلعہ میں تبدیل کرنے کی منصوبہ بندی ہے جو کبھی بائیں محاذ کا گڑھ تھا ۔ بی جے پی اور سنگھ پریوار کو دینی مدارس سے خوف اس لئے ہے کہ وہ اسلام کے مضبوط قلعے ہیں۔ مسلمانوں کو دین اور شریعت سے دور کرنا ہو تو مدارس کو بند کرنے کے سوا کوئی راستہ نہیں۔ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف سازش کرنے والے نہیں جانتے کہ پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائے گا ۔ اسلام غالب ہونے کیلئے ہے اور دنیا کی کوئی طاقت اسے مغلوب نہیں کرسکتی۔ دنیا میں جہاں جہاں اسلام کے خلاف سازشیں کی گئیں ، ان ممالک میں اسلام تیزی سے پھیل رہا ہے ۔ مسلمان ہندوستان میں ہر چیز کو برداشت کرنے کے عادی بن چکے ہیں اور یہی بے حسی مخالفین کے حوصلوں کو بلند کرنے کا سبب بن رہی ہے ۔ معاشرہ میں جب حلال اور حرام کی تمیز ختم ہوجائے تو احساس زیاں کا ختم ہونا طئے مانا جاتا ہے ۔ اسلام کے غلبہ کے لئے اللہ تعالیٰ کسی کا محتاج نہیں ۔ اگر مسلمان اس ذمہ داری کی تکمیل میں ناکام ہوجائیں تو اللہ تعالیٰ کسی اور گروہ کو کھڑا کردے گا ۔ مسلمانوں کے حوصلوں کو پست کرنے کی مہم میں بعض خود رو پودوں کی طرح ابھرنے والے نام نہاد دانشور بھی شریک ہیں جو ہمیشہ مسلمانوں کی کمزوریوں کو اجاگر کرتے ہوئے ایسے واقعات کو اپنی تحریروں کا موضوع بناتے ہیں جن سے مسلمان شرمندہ اور پست ہمت ہوجائیں۔ اب تو خانقاہوں کو بی جے پی سے قریب کرنے کیلئے امیت شاہ کے حواری صوفیا اور خانقاہی لباس میں دھوکہ دے رہے ہیں۔ آسام میں دینی مدارس کے خلاف فیصلہ محض ایک تجربہ ہے اور اگر مسلمان مزاحمت نہ کریں تو ملک بھر کے دینی مدارس بند کرنے کے حق میں فیصلے ہوں گے ۔ نفرت کے سوداگروں کے حوصلے اس قدر بلند ہیں کہ مدھیہ پردیش میں مسجد پر بھگوا پرچم لہرایا گیا ۔ دہلی فسادات میں مساجد کے ساتھ پیش آئے واقعات کو دہرانے کی ضرورت نہیں ۔

ملک کی واحد مسلم اکثریتی ریاست کشمیر کو ہندو اکثریتی ریاست میں تبدیل کرنے کیلئے دفعہ 370 کو برخواست کیا گیا ۔ ایک سال مکمل ہونے کے باوجود سارے ملک میں کوئی ری ایکشن نہیں ہے ۔ مسلمانوں نے کشمیریوں پر مظالم سے اپنے آپ کو لاتعلق کرلیا ہے ۔ لو جہاد کے نام پر مختلف ریاستوں میں کی گئی قانون سازی غیر دستوری ہے اور عدالتوں میں اسے ناقابل عمل قرار دیا ۔ لو جہاد پر کارروائی سے قبل بی جے پی کو اپنے اندر چھپے دو جہادیوں کے خلاف کارروائی کرنی چاہئے ۔ مختار عباس نقوی اور شاہنواز حسین نے سنگھ پریوار کے اہم قائدین کے گھروں میں لو جہاد کیا ہے۔ مطلب یہ ہوا کہ بی جے پی میں رہ کر لو جہاد جائز اور قانون ہوجاتا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ حکمراں اگر شادی شدہ ہو تو وہ گھر اور باہر کے مسائل سے واقف ہوتا ہے لیکن یہاں تو دہلی اور اترپردیش دونوں جگہ ایسے حکمراں ہیں جنہوں نے گھر والی سے کبھی لو نہیں کیا۔ ظاہر ہے کہ جو گھر میں محبت سے عاری ہو وہ دوسروں سے کیا ہمدردی کرے گا۔ ویسے بھی ماہرین نفسیات کی تحقیق ہے کہ غیر شادی شدہ افراد زیادہ تر سنگدل واقع ہوئے ہیں۔ راحت اندوری کا یہ شعر آج کے حکمرانوں پر صادق آتا ہے ؎
ضمیر ان کے بڑے داغدار نکلیں گے
جو پھر رہے ہیں یہ چہرے دھلے دھلائے ہوئے