عوام کی جیب پر خاموش ڈاکہ جاری

   

بھڑک اٹھی ہیں شاخیں پھول شعلے بنتے جاتے ہیں
ہمارے آشیانوں سے کہاں تک روشنی ہوتی
عوام کی جیب پر خاموش ڈاکہ جاری
ایک ایسے وقت جبکہ ساری دنیا میں کورونا وائرس کی وجہ سے ہونے والی تباہی اور معاشی نقصانات کی وجہ سے حکومتیں عوام کو مختلف انداز سے راحتیں پہونچانے میں مصروف ہیں اور ہر ممکنہ کوششیں کر رہی ہیں وہیں ہمارے ملک میں خاموشی سے عوام کی جیبوں پر ڈاکہ ڈالنے کا سلسلہ جاری ہے ۔ یہ ڈاکہ پٹرول اورڈیزل کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ کے ذریعہ ڈالا جا رہا ہے حالانکہ عالمی منڈی میں خام تیل کی قیمتیں بہت زیادہ کم ہوگی ہیں۔ اب عالمی منڈی میں خام تیل کی قیمتیں 40.66 ڈالرس فی بیاریل ہوگی ہیں اس کے باوجود ملک میں تیل کی قیمتیں کم ہونے کی بجائے مسلسل بڑھتی جا رہی ہیں۔ جس وقت مرکز میں کانگریس زیر قیادت یو پی اے حکومت برسر اقتدار تھی عالمی منڈی میں خام تیل کی قیمت فی بیاریل 107.09 ڈالرس فی بیاریل تھی ۔ اس وقت پٹرول ملک میں فی لیٹر 71.41 روپئے فروخت کیا جا رہا تھا اور اب جبکہ خام تیل کی قیمتیں 40 ڈالرس فی بیاریل ہیں پٹرول فی لیٹر 76.26 روپئے فی لیٹر فروخت کیا جا رہا ہے ۔ سابق میں فی لیٹر اکسائز ڈیوٹی 3.46 روپئے وصول کی جا رہی تھی اور اب فی لیٹر اکسائز ڈیوٹی 31.83 روپئے وصول کی جا رہی ہے ۔ یہ منظم اور خاموش انداز میں عوام کی جیبوں پر ڈاکہ ڈالنے جیسا عمل ہے ۔ مرکزی حکومت کی جانب سے تیل کمپنیوں پر کنٹرول عملا ختم کردیا گیا ہے اور پٹرول اور ڈیزل کی قیمتوںکو عالمی مارکٹ سے مربوط کردیا گیا ہے ۔ عالمی مارکٹ میں جب کبھی تیل کی قیمتوں میں اضافہ ہوتا ہے اس کا راست بوجھ عوام پر منتقل کردیا جاتا ہے اور حکومت بری الذمہ ہوجاتی ہے اور جب بھی تیل کی قیمتوں میں کمی آتی ہے جیسے اب آئی ہوئی ہے حکومت اس کا فائدہ بھی عوام کو منتقل کرنے کی بجائے اکسائز ڈیوٹی میں اضافہ کرتے ہوے عوام کو اس راحت سے محروم کردیتی ہے اور خود اپنے خزانے بھرنے میں جٹ جاتی ہے ۔ سرکاری خزانہ کی لوٹ مار ملک کے چنندہ اور مٹھی بھر کارپوریٹ تاجر اور کمپنیاں کرتی ہیں۔ ان سے قرضہ جات کی واپسی کی جو شرح ہے وہ انتہائی کم ہے اس سے حکومتوں کی ساز باز کے اندیشے تقویت پاتے ہیں۔
گذشتہ 9 دن سے مسلسل تیل کی قیمتوں میں یومیہ اضافہ کیا جارہا ہے ۔ تیل کمپنیاں ہر روز پٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں اضافہ کرتی جا رہی ہیں اور گذشتہ نو دنوں میں پٹرول کی قیمت میں فی لیٹر پانچ روپئے کا اور ڈیزل کی قیمت میں فی لیٹر 4.87 روپئے کا اضافہ ہوگیا ہے اور اس کا عوام کو احساس تک ہونے کا موقع نہیں دیا جا رہا ہے ۔ کسی اعلان کے بغیر خاموشی سے یہ اضافہ کیا جا رہا ہے اور تیل کی قیمتوں میں اضافہ کا راست اثر نہ فیول کی خریدی سے بلکہ دوسری اشیائے ضروریہ کی خریدی سے بھی عوام پر ہی پڑتا ہے ۔ عوام کی جیبیں خالی ہوتی ہیں۔ ڈیزل کی قیمت میں جیسے ہی اضافہ ہوتا ہے اشیائے ضروریہ کی منتقلی پر اس کا اثر ہوتا ہے اور اس کی بھرپائی بھی عوام سے زائد قیمتیں وصول کرتے ہوئی کی جاتی ہے ۔ یہ ایک متواتر لوٹ ہے جو عوام کو سہنی پڑتی ہے اور عوام کو اس کا احساس تک ہونے نہیں دیا جا رہا ہے ۔ حکومتیں تیل کی قیمتوں کو عالمی منڈی کی صورتحال سے جب مربوط کرتی ہیں تو انہیں اندرون ملک بھی پٹرول اور ڈیزل کو جی ایس ٹی کے دائرہ کار میں لاتے ہوئے اس کی ایک شرح اور حد مقرر کرنے کی ضرورت ہے ۔ اگر ایسا کیا جائے تو جہاں تیل کی قیمتوں میں اضافہ کا بوجھ عوام پر عائد ہوگا وہیں قیمتوں میں کمی سے راحت بھی عوام کو ہوسکتی ہے ۔ لیکن ہندوستان میں ایسا ہونے نہیں دیا جا رہا ہے اور مسلسل عوام پر راست بوجھ عائد کیا جارہا ہے ۔
ملک بھر میں کورونا وائرس کے قہر کی وجہ سے کروڑہا افراد کے روزگار سے متاثر ہونے کے اندیشے ہیں۔ بے شمار لوگ پہلے ہی روزگار سے محروم ہوچکے ہیں اور مزید کروڑوں لوگوں کا روزگار بھی داو پر لگا ہوا ہے ۔ ایسے میں عوام کے پاس اشیائے ضروریہ کے حصول کیلئے ہی پیسے نہیں ہیں اور حکومتیں ان کو راحت پہونچانے کی بجائے انہیں لوٹنے میں مصروف ہیں۔ کورونا وباء کے دور میں حکومتوں سے عوام کو امداد کے نام پر 500 روپئے یا 1500 روپئے فراہم کرتے ہوئے خود کو شاباشی دی جاتی ہے لیکن اس سے کئی گنا زیادہ پیسہ ٹیکس اور محصول کے نام پر وصول کیا جاتا ہے ۔ یہ عوام سے ہمدردی کے نام پر ایک دھوکہ ہے اور اس کا سلسلہ بند ہونا چاہئے ۔ پٹرول اور ڈیزل پر اکسائز ڈیوٹی کی ایک حد مقرر کرنے کی ضرورت ہے تاکہ مارکٹ کے حالات کے اعتبار سے عوام کو بھی قدرے راحت مل سکے ۔