عورت کے سسرالی محارم

   

سوال : ایک خاتون کیلئے اس کے سسرالی رشتہ داروں میں کون محرم ہیں جیسے خسر ‘ شوہر کے چچا ‘ نانا ‘ شوہر کے پھوپا ‘ شوہر کے ماموں اور خالو ۔اور اگر کسی وجہ سے خاتون اپنے شوہر کے رشتہ سے خارج ہوجائے ( طلاق یا انتقال کے ذریعہ ) تب کبھی کیا رشتہ حرمت باقی رہیگا ۔
جواب : صورت مسئول عنہا میں شوہر کے اصول باپ ‘ دادا ‘ نانا اور شوہر کے فروع ‘ بیٹا ’پوترا ‘ نواسہ ‘ عورت کے محرم ہیں ۔ یہ مؤبدی طور پر ہمیشہ کیلئے عورت پر حرام ہیں ۔ انتقال یا تفریق کے بعد بھی یہ لوگ محرم رہیں گے ۔ ان سے نکاح حرام ہوگا ۔شوہر کے چچا ‘ اور پھوپھا ‘ ماموں اور خالو یہ سب غیر محرم ہیں ۔شوہر کے انتقال یا تفریق کے بعد ان سے نکاح ہوسکتا ہے ۔ جیسا کہ آیت کریمہ’’حرمت علیکم امھاتکم و بناتکم و اخواتکم و عماتکم و خالاتکم …… وحلائل ابنائکم الذین من اصلابکم …… (النساء ۴؍۳۲) سے ظاہر ہے ۔
جھوٹی قسم
سوال : کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ ایک مسئلہ میں میں نے جان بوجھ کر جھوٹی قسم کھائی ‘اس کے بعد سے میرے دل میں بہت ملامت ہوتی ہے ۔ جھوٹی قسم کے گناہ سے بچنے کیلئے مجھے کیا کرنا چاہئے ۔ کیا اس سے کوئی کفارہ لازم آتا ہے ۔
جواب :صورت مسئول عنہا میں جان بوجھ کر جھوٹی قسم کھانے کو ’’ یمین غموس‘‘ کہا جاتا ہے اور یہ گناہ کبیرہ ہے ‘ اس کا کوئی کفارہ نہیں ہے ۔بلکہ آپ کو چاہئے کہ آپ توبہ کریں اور اللہ تعالیٰ سے عہد کریں کہ آئندہ تا دم زیست پھر کبھی اس عمل کا ارتکاب نہیں کرینگی ۔ در مختار کتاب الایمان میں ہے’’ ( وھی غموس) یغمسہ فی الاثم ثم فی النار وھی کبیرۃ مطلقاً لکن اثم الکبائر متفاوت ( ان حلف علی کذب عمدا… و یأثم بھا ) فیلزمہ التوبہ ‘‘ ۔ رد المحتار میں اسی جگہ ہے ( قولہ فیلزمہ التوبۃ) اذ لا کفارۃ فی الغموس یرتفع بھا الاثم فتعنیت التوبۃ للتخلص منہ ‘‘ ۔
کرایہ کے مکان پر زکوٰۃ
سوال :کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ زید کا ایک رہائشی مکان کے علاوہ دیگر کرایہ کے مکانات ہیں ‘ جن کا کرایہ اور نفع زید کو وصول ہوتا ہے ۔ کیا ان کرایہ کے مکانات کی مالیت کا تخمینہ کرکے زکوٰۃ ادا کرنا ضروری ہے یا نہیں ؟ زید کے علم میں یہ بات ہے کہ رہائشی مکان پر زکوٰۃ نہیں، لیکن کرایہ کے مکانات کے متعلق زیدکو معلوم نہیں ؟
جواب : صورت مسئول عنہا میں اگرزید کے پاس سکونتی مکان کے علاوہ کرایہ کے مکانات ہوں، اور وہ محض کرایہ وصول کرنے کیلئے خریدے گئے ہیں‘ ان کی تجارت مقصود نہیں ہے تو وہ کتنی ہی زیادہ مالیت کے کیوں نہ ہوں ‘ان میں زکوٰۃ نہیں ۔ فتح العین جلداول ص ۳۷۳ کتاب الزکوٰۃ میں ہے: ’’ و لا فرق بین ما لو کانت للسکنی او لم تکن کأن کانت للاستغلال حتی لو اشتری دارا بقصد استغلال أجرتھا لا تجب علیہ الزکوٰۃ و ان کانت قیمتھا نصابا ۔شرح وقایہ جلداول ص ۲۶۸ کتاب الزکوٰۃ میں ہے : حتی لو کان لہ عبد لا لخدمۃ او دار للسکن و لم ینو التجارۃ لا تجب فیھما الزکوۃ و ان حال علیہ الحول ‘‘ ۔ فقط واﷲ أعلم