فتنوں کی شدت

   

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’قسم ہے اس ذات پاک کی، جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، (پوری دنیا اس وقت تک فنا نہیں ہوگی، جب تک لوگوں پر ایسا دن (یعنی بدامنی و انتشار فتنہ و فساد کی شدت انتہاء سے بھرا ہوا وہ دور) نہ آجائے، جس میں نہ قاتل کو یہ معلوم ہوگا کہ اس نے مقتول) کو کیوں قتل کیا اور نہ مقتول (یا اس کے ورثاء و متعلقین) کو یہ معلوم ہوگا کہ اس کو کیوں قتل کیا گیا‘‘۔ پوچھا گیا کہ یہ کیونکر ہوگا؟ (یعنی اس کی وجہ کیا ہوگی کہ قتل کا سبب نہ قاتل کو معلوم ہوگا نہ مقتول کو)۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’ہرج کے سبب، نیز قاتل و مقتول دونوں دوزخ میں جائیں گے‘‘۔ (مسلم)
مطلب یہ ہے کہ اس زمانہ میں لوگوں کے دل و دماغ سے فتنہ و فساد اور قتل و غارتگری کی برائی کا احساس اس طرح ختم ہو جائے گا کہ نہ تو قاتل بتا سکے گا کہ اس نے مقتول کا خون کس مقصد سے بہایا ہے اور نہ مقتول اور اس کے ورثاء و متعلقین کو یہ معلوم ہوگا کہ اس کی جان کس دنیاوی غرض و مقصد کے تحت یا کس شرعی وجہ کی بنا پر ماری گئی ہے۔ ایسا اندھیرا پھیل جائے گا کہ بس شکوک و شبہات اور ذرا ذرا سے واہموں پر انسان کا قیمتی خون بے دریغ بہایا جانے لگے گا۔ اس بات سے کوئی غرض نہیں ہوگی کہ کون شخص حق پر ہے اور کون باطل پر۔ بلاتشخیص و تمیز جو جس کو چاہے گا موت کے گھاٹ اُتار دے گا۔ موجودہ زمانہ کے حالات کو دیکھتے ہوئے کون کہہ سکتا ہے کہ مذکورہ صورت حال کا ظہور نہیں ہوگا۔