فضائل مولائے کائنات وخاتون جنت

   

سید شاہ مصطفی علی صوفی سعید قادری
جب نجران کے عیسائی حضور اکرم صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم سے نبوت کے بارے میں جھگڑنے لگے تو آیت مباہلہ (اٰل عمران۔۶۱) نازل ہوئی جس میں اپنی عورتوں اور بیٹیوں کے ساتھ نکل کر مباہلہ کرنے کا حکم دیا گیا۔ اس موقع پر حضور رسول مقبول صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم حضرات علی‘ فاطمہ‘ حسن اور حسین رضی اللہ عنہم کو اپنے ساتھ لیکر نکلے اور فرمایا ’’الٰہی یہ میرے گھر والے ہیں‘‘۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ’’مسجد نبوی میں مدینہ کا چاند‘ تاروں کے جھرمٹ میں تشریف فرماتھا جس میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ بھی حضور اکرم صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کی داہنی جانب بیٹھے تھے اُسی اثناء میں حضرت علی رضی اللہ عنہ تشریف لائے اور سلام کرکے کھڑے ہوگئے۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ فورًا اپنی جگہ سے اُٹھ گئے اور فرمایایہاں آئیے ابوالحسن۔ جس پر چہرئہ نبوی پر مسرت کے آثار نمایاں ہوگئے اور ارشاد فرمایا: ’اے ابوبکر فضل والا ہی فضل والے کی قدر کرنا جانتا ہے‘۔طبرانی کی روایت ہے کہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی تھیں کہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کے پدر بزرگوار (صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم ) کے بعد اُن سے بہتر میں نے قطعاً کسی کو نہیں دیکھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کی نسلِ پاک صرف اُنہی سے قائم ہے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا ام المؤمنین سے روایت ہے کہ ’’فاطمہ رضی اللہ عنہا کو ایک مرتبہ آتے دیکھا تو اُن کے چلنے کا انداز بالکل رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کے چلنے کے انداز سے مشابہ تھا‘‘۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کے غلام حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ نے کہا ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم جب کسی سفر پر روانہ ہوتے تو روانگی کے وقت سب سے آخری کام جو کرتے وہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا سے ملاقات ہوتی اور اسی طرح واپسی میں پہلا کام یہی کرتے کہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کو دیکھتے (یعنی کم سے کم وقت جدائی کا رہتا)۔