قبر میں دوسرا مردہ دفن کرنا

   

سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ میری {یعنی زید کی } خواہش ہے کہ اپنی والدئہ مرحومہ کی قبر میں جن کو انتقال کئے ہوے ایک کافی دراز عرصہ گذرچکا ہے بعد وفات میری تدفین عمل میں آئے۔
متذکرہ بالا خواہش میں کوئی شرعی امر مانع تو نہیں ہے ؟
بینوا تؤجروا
جواب : قبر اگر اتنی پرانی ہوگئی ہو کہ اس میں میت گل کر مٹی ہوجانے کا یقین ہو تو ایسی حالت میں اس قبر کو کھول کر دوسری میت دفن کرنا جائز ہے۔ پہلی میت کی اگر کچھ ہڈیاں باقی رہ گئی ہوں تو ان کو یکجا کرکے بازو دفن کردیا جائے اورنئی میت اور ان ہڈیوں کے درمیان مٹی کا فصل بنادیا جائے۔ ولو بلی المیت وصار تراباً جاز دفن غیرہ فی قبرہ وزرعہ والبناء علیہ کذا فی التبیین۔ عالمگیری جلد اول صفحہ ۱۶۷ باب الجنائز اور رد المحتار جلد اول صفحہ ۶۲۴ میں ہے قال فی الفتح ولا یحفر قبر لدفن آخر الا أن بلی الأول فلم یبق لہ عظم الا أن یوجد فتضم عظام الأول ویجعل بینھما حاجز من تراب۔
پس صورت مسئول عنہا میں مذکورہ حالت میں تدفین درست ہے اور اگر احیاناً پہلی میت مرور زمانہ کے باوجود تازہ رہے تو پھر فوراً قبر بند کردی جائے۔