قرآنِ عظیم اور عظمت نبی کریمﷺ

   

مولانا محمد قمر الحسن قادری

لَیْلَۃُ الْقَدْرِ خَیْرٌ
مِّنْ اَلْفِ شَہْرٍ
(سورۃ القدر)

تعظیم و احترام، اسلام کے اولین اصول و ضوابط سے ہے۔ جو جس احترام و تعظیم کے لائق ہوگا، اسلام اس کی اتنی ہی تعظیم کا حکم دیتا ہے۔ بڑے کی تعظیم، پھر جو بہت بڑا ہو اس کی تعظیم اور مخلوق الہٰی میں جو سب سے بڑا اس کی تعظیم، یعنی درجہ بہ درجہ تعظیم کے مراتب مقرر ہیں۔ بڑے بھائی بہنوں کی تعظیم، پھر ماں باپ کی تعظیم اور جو اُن کے ہم رتبہ ہوں ان کی تعظیم، استاد کی تعظیم، علماء و مشائخ کی تعظیم، پھر اولیاء کرام اور مجتہدین عظام کی تعظیم، تابعین و صحابۂ کرام کی تعظیم، پھر انبیاء و مرسلین کی تعظیم اور ان سے بھی بڑھ کر سید المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم کی تعظیم۔ یہ وہ درجات و مراتب ہیں، جن کی تعظیم کا اسلام حکم دیتا ہے۔
حضور رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعظیم فرض ہے اور ایمان کی دلیل بھی ہے۔ آپﷺ کی تعظیم و احترام کے بغیر ایمان کامل نہیں ہوسکتا۔ صحابۂ کرام کی زندگی سے پیغمبر برحقﷺ کی عظمت کا جو درس ملتا ہے، وہ ایک مؤمن کے لئے نمونۂ کامل ہے۔ قرآن عظیم میں تعظیم رسول ﷺ کا تذکرہ جگہ جگہ ملتا ہے، لہذا حضور کی تعظیم و احترام ہر گوشۂ حیات میں لازمی ہے۔ قرآن مقدس اس بات کو بڑی صراحت سے بیان کرتا ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے کے ساتھ ہی ان کا احترام اور ان کی عزت بھی کی جائے۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: ’’تاکہ اے لوگو! تم اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ اور اس رسول کی تعظیم و توقیر کرو‘‘ (سورۃ الفتح۔۹) دوسری جگہ حضورﷺ کی تعظیم اور مدد کو کامیابی کی ضمانت قرار دیا گیا ہے: ’’تو وہ جو ان (نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم) پر ایمان لائیں اور ان کی تعظیم کریں اور انھیں مدد دیں اور اس نور کی پیروی کریں، جو ان کے ساتھ اترا وہی بامراد ہوئے‘‘۔ (سورۃ الاعراف۔۱۵۷)

حضور پرنور صلی اللہ علیہ وسلم کے ہر قول و فعل کو عزت و وقعت کی نگاہ سے دیکھا جائے۔ اپنے ہر قول و فعل میں ان کی عظمت کا ثبوت پیش کیا جائے اور آپ کی ذات والا صفات کے لئے ایسے باوزن، باادب اور محترم الفاظ استعمال کئے جائیں، جن میں کسی طرح کی توہین کا شائبہ بھی نہ ہو۔ اور ایسے الفاظ ہرگز نہ استعمال کئے جائیں، جن سے کسی طرح کی گستاخی ظاہر ہوتی ہو۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’اے ایمان والو! راعنا نہ کہو اور یوں عرض کرو کہ انظرنا یعنی حضور ہم پر نظر رکھیں‘‘۔ (سورۃ البقرہ۔۱۰۴)

کچھ بدطینت یہودی آپﷺ کی خدمت میں حاضر ہوتے اور گفتگو کے درمیان ’’راعِنا‘‘ کہتے، جس کا معنی ان کی زبان میں بُرا تھا۔ اگرچہ صحابہ کرام اس لفظ کو ’’رعایت‘‘ کے معنی میں لیتے تھے، مگر اس کا ایک پہلو توہین کا تھا، اس لئے اللہ تعالیٰ نے اس لفظ کے استعمال کو منع کردیا۔ اہل علم نے اسی لئے بیان فرمایا کہ ایسا لفظ جس کے دو معنی ہوں، ایک تعظیم کا اور دوسرا توہین کا تو اس لفظ کو حضورﷺ کے لئے ہرگز نہ استعمال کیا جائے۔

حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جو حکم کسی کو دیں، اس کو فوراً قبول کرلے، اس میں اپنی رائے کا دخل نہ دے، اس لئے کہ حضورﷺ کے حکم کے بعد اپنی رائے کا اختیار ختم ہو جاتا ہے۔ ارشاد ربانی ہے: ’’جو کچھ تمھیں رسول عطا فرمائیں وہ لے لو اور جس سے منع فرمائیں باز رہو‘‘ (سورۃ الحشر۔۷) دوسری جگہ ارشاد فرمایا ’’اور نہ کسی مسلمان مرد نہ مسلمان عورت کو حق پہنچتا ہے کہ جب اللہ و رسول کچھ حکم فرمادیں توانھیں اپنے معاملہ کا کچھ اختیار ہے۔ اور جو حکم نہ مانے اللہ اور اس کے رسول کا وہ بے شک صریح گمراہی میں بہکا‘‘۔ (سورۃ الاحزاب۔۳۶)
واقعہ یہ ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت زینب بنت جحش رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے نکاح کا پیغام دیا۔ حضرت زینب حسب و نسب کے لحاظ سے بلند تھیں، اس لئے حضورﷺ کے اس حکیم کی تعمیل نہ کیں، تو مذکورہ آیت نازل ہوئی کہ کسی بھی مسلمان کو یہ حق نہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کے بعد اپنی کوئی رائے پیش کرے۔ اگر اس وقت کوئی اپنی رائے کو دخل دے گا تو وہ گمراہ، مجرم اور نافرمان سمجھا جائے گا۔ پھر اس حکم کے بعد حضرت زینب نے حضورﷺ کے پیغام کو قبول کیا اور حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے آپ کا نکاح ہو گیا۔

حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جو طرز خوردونوش عطا فرمایا اور جن جن چیزوں کو حلال فرمایا، وہی چیزیں اور اسی طرح سے کھائی جائیں گی، اس سے ہٹ کر ہرگز نہ کیا جائے گا۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’بے شک تمھیں رسول کی پیروی بہتر ہے، اس کے لئے جو کہ اللہ اور پچھلے دن کی امید رکھتا ہو اور اللہ کو بہت یاد کرے‘‘ (سورۃ الاحزاب۔۲۱) نیز بارگاہ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم میں اگر شرف باریابی ہو اور ان کے ساتھ کھانے کا شرف حاصل ہو تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کی جائے اور انھیں کی اتباع دراصل بڑی کامیابی کا راز ہے۔ قرآن عظیم کا حکم ہے: ’’اور جو اللہ اور اس کے رسول کی فرماں برداری کرے، اس نے بڑی کامیابی پائی‘‘۔ (سورۃ الاحزاب۔۷۱)

حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ چلنے پھرنے اور اُٹھنے بیٹھنے میں بھی تعظیم لازم ہے۔ جب صحابۂ کرام آپﷺ کے ساتھ چلتے تو ہمیشہ پیچھے پیچھے چلتے، کبھی آپ سے آگے نہ چلتے۔ یہی وجہ ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر پیش قدمی اور سبقت کو منع فرمادیا گیا ہے۔ اسی طرح کسی مجلس میں جب تک حضورﷺ بیٹھ نہ جاتے، کسی کو بیٹھنا منع تھا۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’اے ایمان والو! اللہ اور اس کے رسول سے آگے نہ بڑھو اور اللہ سے ڈرو، بے شک اللہ سنتا جانتا ہے‘‘ (سورۃ الحجرات۔۱) یعنی چلنے پھرنے اور اُٹھنے بیٹھنے جیسے امور کی تعظیم قرآن عظیم سکھا رہا ہے کہ اہل ایمان کے لئے لازمی ہے کہ وہ ہر امر میں یہاں تک کہ چلنے پھرنے میں بھی حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعظیم کا خیال رکھیں۔ دوسری جگہ قرآن مقدس کا فرمان ہے: ’’اے ایمان والو! جب تم رسول سے کوئی بات آہستہ عرض کرنا چاہو تو اپنی عرض سے پہلے کچھ صدقہ دے دو، یہ تمہارے لئے بہتر اور بہت ستھرا ہے‘‘ (سورۂ مجادلہ۔۱۲) بارگاہ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کا ادب و تعظیم قرآن عظیم کی روشنی میں واضح ہو گیا۔ اگرچہ یہ حکم صدقہ پھر منسوخ ہو گیا، مگر تعظیم و ادب کا یہ حکم اب بھی باقی ہے۔
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو پکارنے اور بلانے میں بھی تعظیم ملحوظ رکھنے کا حکم دیا گیا ہے۔ جس طرح لوگ آپس میں ایک دوسرے کو پکارتے ہیں، اس طرح حضورﷺ کو نہیں پکارا جائے گا۔ اسی لئے قرآن مقدس میں اللہ تعالیٰ نے جب بھی آپﷺ کو مخاطب کیا تو ذاتی نام لے کر نہیں پکارا، بلکہ صفاتی نام لے کر آواز دی ہے، جیسے ’’یاایھا النبی، یا ایھا الرسول، طٰہٰ، یٰسٓ‘‘ وغیرہ وغیرہ۔ قرآن پاک کا حکم ہے: ’’رسول کے پکارنے کو آپس میں ایسا نہ ٹھہرالو، جیسا تم میں ایک دوسرے کو پکارتا ہے‘‘ (سورۃ النور۔۶۳) دوسری جگہ اللہ تعالیٰ نے ادب سکھایا اور بلانے میں عامیانہ طریقہ پر توبیخ بھی فرمائی۔ حکم رب العالمین ہے: ’’بے شک وہ جو تمھیں حجروں کے باہر سے پکارتے ہیں، ان میں اکثر بے عقل ہیں اور اگر وہ صبر کرتے یہاں تک تم ان کے پاس تشریف لاتے تو یہ ان کیلئے بہتر تھا اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے‘‘ (سورۃ الحجرات۔۴،۵) مذکورہ آیات سے متعلق واقعہ یہ ہے کہ بنی تمیم کا ایک وفد حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اس وقت آیا، جب کہ آپﷺ دوپہر کو قیلولہ فرما رہے تھے۔ یہ لوگ دولت کدہ کے باہر کھڑے ہوکر حضورﷺ کو پکارنے لگے تو مذکورہ آیات نازل ہوئیں اور انھیں بتایا گیا کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو بلانے اور پکارنے میں احترام و ادب کا ہر پہلو ملحوظ رکھو۔