قران

   

(اپنے حبیب کو) سکھایا ہے قرآن ۔ (سورۂ رحمٰن ۔۲) 
اپنے بےشمار انعامات میں سے سب سے پہلے تعلیم قرآن کا ذکر کیا۔ کیونکہ یہی وہ آفتاب ہے کہ جب مطلع حیات پر طلوع ہوتا ہے تو زندگی کی شبِ دَیجور ، صبح سعادت سے آشنا ہوتی ہے ۔ انسان جب اس کی ہدایات کو خضر راہ بناتا ہے تو شرف انسانی کی منزل تک پہنچ جاتا ہے ۔ یہی وہ صحیفۂ رشد و ہدایت ہے کہ بھٹکے ہوئے انسان کا رشتہ اپنے خالق کریم سے جوڑ دیتا ہے۔’علم‘ دو مفعولوں کی طرف متعدی ہوتا ہے، یعنی کس کو سکھایا اور کیا سکھایا۔ یہاں دوسرا مفعول تو ذکر کردیا کہ قرآن کی تعلیم دی لیکن پہلا مفعول کہ کس کو تعلیم دی، مذکور نہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ مفعول اتنا عیاں ہے کہ عدم ذکر کے باوجود کسی کو اس کے بارے میں تردّد نہیں ہوسکتا اور وہ ہے ذات پاک محمّدِ مصطفیٰ ، حبیب کبریا علیہ اطیب التحیۃ واجمل الثنا۔ حضور (صلی اللہ علیہ وسلم) کے سوا علوم قرآنیہ سے جتنا کچھ حصہ کسی کو ملا ہے وہ سب حضور (ﷺ) کے واسطہ سے اور حضور (ﷺ) کے طفیل ملا ہے۔ذرا غور فرمائیے، متعلّم محمّد ابن عبداللہ روحی وقلبی فداہ ہے اور معلّم خود خالق ارض وسما ہے۔ شاگرد مکہ کا امّی ہے اور استاد عالم الغیب والشہادۃ ہے اور پڑھایا کیا جارہا ہے؟ قرآن…کون سا قرآن؟ جو سراپا رحمت ہے، جو مجسّم ہدایت ہے، جو نورٌ علی نور ہے، جس کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے هٰذَا بَيَانٌ لِّلنَّاسِ وَهُدًى وَّمَوْعِظَـةٌ لِّلْمُتَّقِيْنَ اورجس کے بارے میں ارشاد خداوندی ہے : (کوئی خشک و تر چیز ایسی نہیں جس کا ذکر اس کتاب مبین میں موجود نہ ہو) اس تعلیم سے جو بحر بےپیداکنار اس صدر منشرح میں موجزن ہوا اس کا کون اندازہ لگا سکتا ہے۔ خلیفۃ اللہ فی الارض آدم علیہ السلام کے متعلق فرمایا: وَعَلَّمَ آدَمَ الْأَسْمَاءَ كُلَّهَااور خلیفۃ اللہ فی العالم کے بارے میں فرمایا : عَلَّمَ الْقُرْاٰنَ۔