قران

   

پیدا فرمایا انسانِ (کامل) کو ۔ (سورۂ رحمٰن ۔۳) 
اس سے نعمت ایجاد کا ذکر ہورہا ہے۔ یہاں انسان سے مراد نوع انسانی ہے۔ بعض علما کا خیال ہے کہ اس سے مراد حضرت آدم علیہ السلام ہیں۔ حضرت ابن عباس (رض) سے یہ قول بھی منقول ہے کہ ’’ الْاِنْسَانَ ‘‘ سے مراد حضور نبی کریم (ﷺ) (قرطبی)علامہ پانی پتی لکھتے ہیںیعنی یہ درست ہے کہ یہاں انسان سے مراد محمد مصطفیٰ (ﷺ) ہوں اور عَلَّمَہُ الْبَیَانَ سے قرآن مراد ہو جس میں جو کچھ ہوچکا اور جو کچھ ہورہا ہے ازل سے ابد تک کا بیان ہے۔علامہ پانی پتی فرماتے ہیں :جب الانسان سے حضور (ﷺ) کی ذات والا صفات مراد ہو اور علمہ البیان سے بھی حضور (ﷺ) کو بیان کی تعلیم ہو تو یہ دونوں آیتیں پہلی آیت کی تفصیل ہوں گے ۔ یعنی جس کو قرآن کا علم دیا ہے اسی انسان کی پیدائش اور اسی کو بیان سکھانے کا ذکر ہورہا ہے۔ اَلرَّحْمٰنُمبتدا ہے اور یہ تینوں یکے بعد دیگرے اس کی خبریں۔ علامہ خازن، علامہ بغوی اور دیگر مفسرین نے بھی اس آیت کی تفسیر میں یہی قول نقل کیا ہے۔ ’’ خَلَقَ الْاِنْسَانَ‘‘میں الانسان سے مراد اگر نوع انسانی ہو اور ’’ عَلَّمَہُ الْبَیَانَ ‘‘ میں بھی اسی کو بیان کی تعلیم کا ذکر ہو تو بلاشبہ یہ بھی الرحمٰن کی شان رحمانیت کا روشن ظہور ہے ۔ لیکن آپ خود بتائیں ’’ الْاِنْسَانَ‘‘ سے مراد اگر وہ باعث تخلیق کائنات، فخر آدم وبنی آدم ہو جسے خداوند کریم نے رحمۃ للعالمین کے دلنواز لقب سے مشرف فرمایا ہے اور ’’ عَلَّمَہُ الْبَیَانَ‘‘ سے مراد بیان حقیقت اور اظہار اسرار کی وہ بےپناہ صلاحیّت ہو جو شان نبوت کا خاصہ ہے تو شان رحمانیت کی ضیاباریوں کا کیا عالم ہوگا۔یہ بھی بتادیا کہ خود اللہ تعالیٰ نے اپنے پیارے رسول اور برگزیدہ بندے کو قرآن سکھایا اور خود ہی اسے بیان قرآن کی تعلیم دی۔ نہ قرآن اس نے خود گھڑا ہے اور نہ اس کا بیان خود ساختہ ہے۔ قرآن بھی اللہ تعالیٰ نے اتارا ہے اور اس کا بیان بھی اسی نے سکھایاہے۔