قران

   

اَلرَّحْـمٰنُ … رحمٰن نے ۔
اس سورۂ مبارکہ میں ان تمام روحانی اور جسمانی دنیا اور اخروی نعمتوں کا ذکر تفصیل سے ہورہا ہے جن سے جن وانس کو ابتدائے آفرینش سے سرفراز فرمایا گیا، سرفراز فرمایا جا رہا ہے یا عالم آخرت میں سرفراز فرمایا جائے گا۔ اس لیے اس کی ابتدا الرحمٰن سے ہوئی جو مبالغہ کا صیغہ ہے۔ ازحد مہربان، بہت ہی رحمت فرمانے والا۔ جس کا دستر خوانِ جودو کرم اتنا کشادہ ہے کہ مومن وکافر ، مطیع وعاصی، اپنے اور بیگانے کسی نہ کسی صورت میں مستفید ہورہے ہیں اور جس کا دامن رحمت اتنا وسیع ہے کہ فقط یہ دنیائے فانی ہی نہیں بلکہ از ازل تا ابد سب اس کے سایۂ عاطفت میں پناہ لیے ہوئے ہیں۔ حضرت امام غزالی الرحمٰن کی تشریح کرتے ہوئے لکھتے ہیں:اَلرَّحْـمٰنُ : یعنی الرحمن اپنے بندوں پر ازحد لطف وعنایت فرمانے والا ۔ اس کا پہلا احسان تو یہ ہے کہ پیدا فرمایا۔ دوسرا لطف یہ ہے کہ پیدا کرنے کے بعد وادئ ضلالت میں آوارہ بھٹکنے کے لیے نہیں چھوڑدیا بلکہ حق کی طرف رہنمائی فرمائی اور اسباب سعادت سے بہرہ ور فرمایا۔ تیسری ذرہ نوازی یہ کرے گا کہ یوم حشر ان کی مغفرت فرمائے گا اور غایت رحمت کا ظہور اس وقت ہوگا جب عاشقان زار کو، محبّان دلفگار کو، مشتاقان دیدار کو شرف دیدار سے مشرّف فرمائے گا۔نیز کفار کے ایک سوال کا جواب بھی ہے۔ انہوں نے جب اللہ تعالیٰ کے اسمائے حسنیٰ میں الرحمٰن سنا تو کہنے لگے کہ الرحمٰن کون ہے۔ ہم تو اس کو نہیں جانتے۔ بتادیا کہ الرحمٰن وہ ہے جس کی شان رفیع تم اس سورۂ مبارکہ میں سنو گے۔