قرآن

   

اور اس نے زمین کو پیدا کیا ہے مخلوق کے لیے اس میں گوناگوں پھل ہیں اور کھجوریں غلافوں والی۔ (سورۂ رحمٰن : ۱۰۔۱۱) 
علامہ راغب وَضَعَهَا کی تشریح کرتے ہوئے لکھتے ہیں: اللہ تعالیٰ نے زمین کو اس طرح بنایا ہے کہ اس میں ہر جاندار آرام اور سکون سے اپنی زندگی بسر کرسکتا ہے۔ ہوا، روشنی، پانی، آگ، آشیائے خوردنی، آسائش وآرام کے دیگر لوازمات یہاں فراہم کردیئے گئے ہیں تاکہ ہر چیز اپنی ضروریات زندگی حاصل کرسکے اور طبعی مقاصد کو پایۂ تکمیل تک پہنچا سکے۔ابن عباس فرماتے ہیں ہر جاندار کو انام کہتے ہیں۔بعض لوگ اشتراکیت کی عینک سے قرآن کا مطالعہ کرتے ہیں اور بےسمجھے اس کی آیات سے اشتراکی تعلیمات ثابت کرتے ہیں۔ انہوں نے لغت عربی کے ساتھ زیادتی کرتے ہوئے انام کو انسان کا متردف قرار دیا اور کہا کہ اس آیت سے ثابت ہوتا ہے کہ زمین سب انسانوں کے لیے مشترک ہے اور چونکہ ہر ملک کی حکومت وہاں کے باشندوں کی نمائندہ ہوتی ہے اس لیے زمین کی ملکیت کے حقوق صرف حکومت کو حاصل ہیں۔ اس طرح یہ لوگ قرآن کی آیت پر زیادتی کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ سے بھی نہیں شرماتے۔ انام سے مراد انسان ، حیوان، چرندپرند، مور ملخ سب جاندار چیزیں ہیں۔ اکمام جمع ہے کِمٌّ کی۔ اس سے مراد وہ غلاف ہے جو قدرتی طور پر پھلوں پر چڑھا ہوتا ہے تاکہ ان کا رَس اور ان کا نرم گودا ضائع نہ ہوجائے۔ موسمی تغیّرات اس کو خراب نہ کردیں۔ مکھیاں اور مچھر اس کو گندا نہ بنادیں۔ جس مولائے کریم نے تمہاری خوراک کے قدرتی اسباب کو اتنی خوبصورتی سے ’پیک‘ کردیا ہے اور ان کو ہر طرح کے بیرونی مضر اثرات سے بچا رکھا ہے تاکہ جب تیرے منہ میں کھجور کا دانہ یا آم کی کوئی قاش پہنچے تو وہ بالکل پاک صاف اور تازہ ہو۔ کیا اس کی شان رحمانیت کا تم انکار کرسکتے ہو۔