قرآن

   

… اور نہ زور سے آپ کے ساتھ بات کیا کرو جس طرح زور سے تم ایک دوسرے سے باتیں کرتے ہو (اس بےادبی سے) کہیں ضائع نہ ہو جائیں تمہارے اعمال اور تمہیں خبر تک نہ ہو۔( سورۃ الحجرات۔ ۲) 
یہاں لام مقدر ہے اور یہ لام عاقبت کے لیے ہے۔ یعنی اگر تم سے آواز اونچا کرنے کی بےادبی ہوگئی تو اس کا انجام یہ ہوگا کہ تمہارے سارے اعمال برباد ہو جائیں گے۔ اولا اور بالذات یہ خطاب صحابہ کرام کو ہو رہا ہے جن کا ایثار بےنظیر، جن کی قربانیاں بےمثال، جن کی عبادتیں خشوع و خضوع میں ڈوبی ہوئی تھیں، جو سرتاپا تسلیم و رضا تھے۔ انہیں کہا جا رہا ہے کہ اگر تم نے میرے پیارے رسول کی جناب میں آواز بھی اونچی کی تو یہ ایسی گستاخی متصور ہوگی کہ تمہاری سب نیکیاں ملیامیٹ ہو جائیں گی۔ آج جو لوگ حضور (ﷺ) کی شان رفیع میں سوقیانہ باتیں کرتے ہیں۔ حضور (ﷺ) کےعلم خداداد پر معترض ہوتے ہیں، ادب و احترام کو ملحوظ نہیں رکھتے۔ اپنے علم پر، اپنی نیکیوں پر اور اپنے ایمان سوز لمبے لمبے وعظوں پر مغرور ہیں وہ اپنے انجام کے بارے میں خود سوچ لیں۔ اس جملہ میں گستاخوں کی اس محرومی و بدنصیبی کا بیان ہے۔ اس کو سن کر بھی علم و زہد کا خمار اگر نہ اُترے، فضیلت و پارسائی کا طلسم اگر نہ ٹوٹے تو بدقسمتی کی انتہا ہے۔ فرمایا جا رہا ہے کہ تمہارے سارے اعمال غارت ہو جائیں گے۔ سب نیکیاں ملیا میٹ ہو جائیں گی اور تمہیں خبر تک نہ ہوگی۔ تم اس غلط فہمی کا شکار ہوگے کہ تم بڑے نمازی اور غازی ہو۔ صائم الدہر اور قائم اللیل ہو، مفسر ہو، محدث ہو، واعظ آتش بیان ہو اور جنت تمہارا انتظار کر رہی ہے اور جب وہاں پہنچو گے تو اس وقت پتہ چلے گا کہ اعمال کا جو باغ تم نے لگایا تھا اسے تو بے ادبی اور گستاخی کی باد صر صر نے خاک سیاہ بنا کر رکھ دیا ہے۔ اس وقت کف افسوس ملو گے، سر پیٹو گے لیکن بےسود، لاحاصل۔