قرآن

   

حج کے چند مہینے ہیں جو معلوم ہیں پس جو نیت کرلے ان میں حج کی تو اسے جائز نہیں بےحیائی کی بات اور نہ نافرمانی اور نہ جھگڑا۔ حج کے دنوں میں اور جو تم نیک کام کرو اللہ تعالیٰ اسے جانتا ہے، اور سفر کا توشہ تیار کرو اور سب سے بہتر توشہ تو پرہیزگاری ہے اور ڈرتے رہو مجھ سے اے عقلمندو ! ۔(سورۃ البقرہ : ۱۹۷) 
یعنی شوال، ذیقعد، اور ذی الحجہ کے دس دن۔ رفث کہتے ہیں جماع کرنا یا اس کے متعلق باتیں کرنا۔ فسوق : تمام گناہ ۔ چھوٹے بڑے ظاہر پوشیدہ۔ جدال : جھگڑا ۔ ان تمام چیزوں سے روک دیا گیا تاکہ حج کا حقیقی مقصد یعنی تربیت نفس ضائع نہ ہوجائے۔یعنی جو نیک کام تم کرتے ہو جسے کوئی اور نہیں دیکھتا یا جن مشتعل جذبات کو تم سختی سے روکے ہوئے ہو۔ جس کا اندازہ دوسرے نہیں کر سکتے ۔ اللہ تعالیٰ تمہارے ہر عمل کو دیکھ رہا ہے۔ اور اپنے نفس سے تمہاری کش مکش کی نوعیت کو بھی خوب جانتا ہے وہ تمہیں ضرور اس کا اجر عظیم عطا فرمائے گا۔ عرب کے اکثر لوگ خصوصاً اہل یمن کا دستور تھا کہ جب حج کی نیت سے گھروں سے نکلتے تو سفر خرچ ساتھ نہ لاتے اور اس کو توکل کے خلاف سمجھتے اور راستہ میں لوگوں سے بھیک مانگا کرتے ۔ مسلمانوں کو اس غیر انسانی طریقہ کار سے روک دیا گیا اور حکم دیا کہ زاد راہ لے کر چلا کرو۔ کسی کی خدمت نہ کر سکو تو کم از کم دوسروں پر بوجھ تو نہ بنو۔ ساتھ ہی فرما دیا بہترین توشہ تقویٰ ہے جو سفر آخرت میں کام آتا ہے۔