قربانی کرنے سے روحانیت کو جلا ملتی ہے

   

مولانا غلام رسول سعیدی

اگر شوق کے ہنگاموں سے دل مچلنے لگے تو عجز کی پیشانیاں اس بے نیاز کی بارگاہ میں جھکنے کے لئے بڑھ جائیں۔ اگر کسی کے نام پر سر کٹانے کا سودا ہو تو اس پر زندگی نثار کی جائے۔ حضرت اسماعیل علیہ السلام نے اسی کے حکم پر سر چھری کے نیچے رکھ دیا۔ بدر کی تپتی ہوئی زمین پر بے شمار صحابۂ کرام نے اسی کا نام بلند کرنے کے لئے برچھیاں کھائی تھیں اور کربلا کے سُلگتے ہوئے ریگزاروں میں اسی کی خاطر حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے گلا کٹایا تھا۔ یہ عشق و محبت کی مہربانیاں اور حسن ازلی کی بے نیازیاں ہیں کہ وہ اپنے بندے کی لگن کو جانتا ہے اور اس کے شوقِ تپش کو پہچانتا ہے۔ اسے معلوم ہے کہ یہ امتحان کا موقع پر ڈگمگانے والے قدم اور مظالم سے اشک اُگلنے والی آنکھیں نہیں ہیں، مگر پھر بھی وہ امتحان لیتا ہے۔ کبھی آگ کے شعلوں میں گھرے ہوئے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے صدق کو آزماتا ہے اور کبھی زیر خنجر آئے ہوئے حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے صبر کو دیکھتا ہے۔ حسن و عشق کا یہی پیچ و تاب اسلام کے تمام احکام کی اصل روح اور واقعی فلسفہ ہے۔

انسان کا سینہ ہوس اور ایثار سے موجزن ہے۔ ہوس ایک حیوانی جذبہ ہے اور ایسے جذبات جب اُبھرتے ہیں تو وہ بس اپنے ہی لئے سوچتا ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ ہر جائز و ناجائز طریقہ سے اپنا پیٹ بھرے اور اپنی ضروریات کو رفع کرے، خواہ اس میں کسی کو نفع ہو یا نقصان۔ جیسے ایک حیوان محض اپنی شکم سیری کے لئے دوسرے کا خون کردیتا ہے اور اسے کوئی تاسف نہیں ہوتا، اسی طرح انسان بھی اسی حیوانی جذبہ کے تحت اپنی خواہشات کو پورا کرنے کے لئے دوسروں کی تمناؤں کا خون کردیتا ہے اور اسے کوئی افسوس نہیں ہوتا۔ دوسرا احساس ایثار و قربانی ہے، جو ایک ملکوتی جذبہ ہے۔ جب ایسے جذبات غالب ہوتے ہیں تو انسان خود تکلیف میں رَہ کر دوسروں کو آرام دینے میں راحت محسوس کرتا ہے۔ اس وقت اس کی تمنا ہوتی ہے کہ وہ بھوکا رَہ کر کسی کو کھانا کھلادے، خود تشنۂ محروم رَہ کر کسی کو سیراب کردے۔ اگر کسی کیاری سے دو پودے غذا حاصل کرتے ہوں تو ایک کاٹ دینے سے دوسرا زیادہ غذا حاصل کرسکتا ہے اور اس کی قوت رعنائی اور بالیدگی بڑھ جاتی ہے۔ اسی طرح انسانی نظام (سسٹم) کے دو جذبوں میں سے اگر ایک کا انقطاع کردیا جائے تو دوسرا ارتقاء پزیر ہوگا۔ حیوانیت کا جس قدر انصرام و انقطاع ہوگا، ملکوتیت اور روحانیت کو اتنی ہی مدد ملے گی۔ قربانی کرنے سے انسان کو سال میں یہ موقع ملتا ہے کہ وہ بے نوا غرباء جو کبھی کبھی ہی گوشت کھاتے ہیں، کثرت سے گوشت کھاسکتے ہیں اور اپنے مال و متاع کو دوسروں پر خرچ کرنے کا ایثار اس حیوانی خواہش پر چھری پھیردیتا ہے، ہوس دَم توڑنے لگتی ہے، ہمدردی اور اخلاص کے جذبات جگمگانے لگتے ہیں اور ملکوتیت و روحانیت انسان کے سینہ میں ایک نیا جنم لیتی ہے۔

فداکارانہ جذبہ اور قربانی کا عزم انسان کو زندگی کے ہر میدان میں فتح و نصرت عطا کرتا ہے اور محض جلب منفعت کا حیوانی جذبہ کمزور کے مقابلہ میں بربریت اور قوی کے سامنے کم ہمتی اور بُزدلی عطا کرتا ہے۔ ہَول اور دہشت کے میدان جنگ میں جہاں قدم قدم پر مجاہدوں کی سخت کوشیاں لبیک کہتی ہیں، جہاں خاک و خون میں لتھڑی ہوئی لاشوں اور زخمیوں کی آہ و بُکا سے خوف کا بدن کپکپانے لگتا ہے، وہاں اس شخص کا گزر غیر متوقع نہیں ہوتا۔ جس کے جسم میں قربانی کی روح موجود ہو، جہاد کی فضا میں زخمیوں کو سنبھالنا اور گرتوں کو اُٹھانا، اس سے متصور ہوسکتا ہے جس کے دل میں اخلاص و ایثار کا جذبہ ہو۔ کافروں اور مشرکوں کا محاسبہ وہی شخص کرسکتا ہے، جو اپنی زندگی میں کبھی خاک و خون سے کھیل چکا ہو۔ جس شخص نے کبھی کسی جانور کے گلے پر چھری نہ پھیری ہو، جو ایک حیوان کو ذبح کرنے سے بھی ڈرتا ہو، اس سے جہاد کرنے کی توقع نہیں کی جاسکتی۔اسلام نے سال میں ایک مرتبہ ایک حیوان کی قربانی کرنے کا حکم دیا، تاکہ ظاہری طورپر اس کا گلا کاٹنے سے مسلمان کے اندر جرأت و ولولہ اور خاک و خون سے مناسبت پیدا ہو اور باطنی طورپر اسے پیسہ خرچ کرنے اور غرباء کو گوشت کھلانے سے اخلاص و ایثار کی عادت پڑے۔ یعنی جانور کی قربانی کے ذریعہ اسلام اپنے فرزندوں کو سمجھاتا ہے کہ جس طرح اللہ کی رضا کے لئے تم آج اس جانور کا خون بہا رہے ہو، کل اسی طرح خدا کے نام پر سربلندی کے لئے تمھیں خود اپنا لہو پیش کرنا ہے۔