ماہ رمضان کا حیات آفریں درس

   

ماہ رمضان المبارک اُمت مرحومہ کیلئے رحمتوں کی سوغات لاتا ہے ،نیکو کار، متقی وپرہیزگار بندوں کے مراتب ودرجات بلندہوتے ہیں،حق سبحانہ کا قرب خاص ان کو نصیب ہوتا ہے ،بندوں کے حق میں وہ بے ضرر ہوتے ہیں حق سبحانہ ان کو ایسے نیک اعمال واشغال کی توفیق بخشتے رہتے ہیں کہ جس کی و جہ وہ دنیا ،اہل دنیا اورآخرت کے بڑے ضرر سے مامون ومحفوظ ہوجاتے ہے ۔ اللہ سبحانہ کے نبی اور ساری انسانیت کے محسن سیدنا محمد رسول اللہ ﷺ نے رمضان پاک کی آمدپر یہ فرمایا ۔ لقد اظلکم شہر عظیم شہر مبارک ۔ اے لوگو تم پر ایک عظمتوں والا مہینہ سایہ فگن ہورہا ہے جو بے نہایت برکتوں کا مہینہ ہے ۔ اب امت مسلمہ کا فریضہ ہے کہ وہ رمضان المبارک کے اس عظیم ومبارک مہینہ کو اپنے اعمال وکردار کی اصلاح کرکے اور اپنی زندگی میں ایک صالح انقلاب برپا کرکے حقیقی معنی میں رمضان پاک کو اپنے حق میں عظمتوں اور برکتوں کا مہینہ بنائے ،رمضان پاک جب کسی کے حق میں عظمتوں اور رحمتوں کا مہینہ بن جائے تو اس کی پوری زندگی عظمتوں اور رحمتوں کی بن سکتی ہے ۔ رمضان پاک کی حقیقی معنی میں قدر وعظمت میں امت مسلمہ کی قدر وعظمت کا راز پوشیدہ ہے ، رمضان پاک کی قدر کرنے والے بندے قابل قدر بن جاتے ہیں ،ضرورت اس بات کی ہے کہ رمضان پاک کے پیغام کی عظیم روح کو امت مسلمہ اپنے اندر سمولے ،رمضان پاک کے مہینہ کو اپنے حق میں حیات آفریں بنالے ،رمضان پاک کی برکتوں اور رحمتوں کو اپنے اندر ایسے جذب کرلے کہ ماہ صیام کے بعد بھی ساری زندگی حق سبحانہ کی رحمتوں کے سایہ میں بسر ہو، موت وحیات کی ہر منزل میں رحمت حق سایہ فگن رہے ،مرضیات رب کی تحصیل اس قدر عزیز ہو کہ رمضان پاک کی آمدمزید قرب خداوندی میں اضافے کا باعث بنے نیزاس کے اختتام سے معمولات زندگی میں کوئی فرق نہ آئے بلکہ رمضان پاک جیسے مرضیات رب میں بسر ہوا ہے ،رمضان پاک کے بعد کی زندگی بھی مرضیات رب کے تابع رہتے ہوئے بسر ہو اس میں زندگی کی کامیابی ہے ،یہی ماہ رمضان کے اختتام کا حیات آفریں درس ہے۔یہ بات یاد رہنی چاہئے کہ مقصد تخلیق کی تکمیل ہی سے دو جہاں کی کامیابی ممکن ہے ۔ اللہ سبحانہ کا قرب اسی طرز فکر پر قائم رہنے سے مل سکتا ہے ،یقینا قرب خداوندی کا مقام رفیع ایک انسان کی سعادت کا سب سے ارفع واعلی مقام ہے جو رمضان پاک کی نسبت خاص سے اپنی ساری زندگی کو انقلاب آفریں بنانے سے حاصل ہوسکتا ہے ،بحیثیت مجموعی رمضان پاک اور روزوں کی نسبت سے امت مسلمہ میں خوشگوار تبدیلی اورخوشگوار انقلاب پیدا ہو ،حق کی نسبت سے کفر وشرک سے سخت اجتناب ،اس کے احکام کی پابندی اور جو کلام حق آثاریعنی قرآن مجید اس نے نازل کیا ہے اس کی اور جس بندے ہمارے آقا ومولی سید الانس والجان سیدنا محمد رسو ل اللہ ﷺ پر نازل کیا ہے ان کی عظمت ،ان کی قدر ومنزلت ان دونوں سے خصوصی نسبت وتعلق کے قیام واستحکام کی فکر امت کا مزاج بن گیا ہو ، اسی کو انہوں نے مقصد زندگی بنالیا ہو ،بندوں کی نسبت سے ظلم وزیادتی وتعدی کا دروازہ اُمت نے عملاً بند کردیا ہو ،ہر شعبہ زندگی میں خواہ وہ سماجی ہو کہ مذہبی ،تشدد کی راہ ترک کردی ہو ،بنیادی اہم مسائل واحکام اعتقادات کی نسبت سے ہوں کہ اعمال کی جہت سے ان کی اہمیت ان پر عمل آوری ان کا ہدف ہو ،اس اہم کام میں انہماک اور اس اہم کاز کیلئے محنت وجدوجہد نے امت مسلمہ کے سارے افراد کو فروعی مسائل ، غیر اہم اعمال واشغال سے لا تعلق کردیا ہو ،

رمضان پاک کے حقیقی احترام اور روزوں کے حقیقی مقصود تقوی نے ان کو من حسن اسلام المرء ترکہ مالا یعنیہ کی عملی تفسیر بنادیا ہو ، تب رمضان پاک کا مہینہ اور اس کا اختتام امت کے حق میں رحمتوں اور برکتوں کا ثابت ہو گا ۔ رمضان پاک کے مبارک مہینہ نے ایمان واحتساب کی روش سکھائی ہے اس تربیت کو رمضان پاک کے اختتام یعنی شوال کا چاند دیکھ کر رخصت نہ کردیا جائے بلکہ اس کو تادم زیست اپنے پر طاری رکھا جائے ،اصلاح اعمال کا ایک طریقہ یہ ہے کہ انسان احتساب کی روش اختیار کرے اور اپنی زندگی پر نظر ثانی کرے ،اس اصول پر عمل سے فرد کی اصلاح بھی ممکن ہے اور جماعت کی بھی ، رمضان پاک کی آمد اور اس کاا ختتام ان کے حق میں مبارک ہے جو ایمان واحتساب کی کیفیات کو اپنے سینے سے لگا کر جینے کا حوصلہ پیدا کرلیں ،نظر ثانی کے اصول کو رہبر ورہنما بنالیں ،اس اصول کی پاسداری سے رمضان پاک کے روزوں سے ایسی تربیت حاصل ہوگی کہ ظاہری دینداری سے زیادہ حقیقی ومعنوی دینداری کی روح جلوہ گر ہوگئی ہوگی ،ظاہر داریوں کی اللہ سبحانہ کے ہاں کوئی قدر وقیمت نہیں ہاں ایسا ظاہر جس کے باطن میں دین کی حقیقی روح موجود ہو وہ یقینا حق کے ہاں قابل قدر ہے ،اس لئے نیت کی اسلام میں بڑی اہمیت ہے جو ہر عمل نیک کی روح اور جان ہے ،اس لئے فرمایا گیا کہ اعمال کا معاملہ نیت سے مربوط ہے جو کچھ ثواب وجزا کی امید کی جاسکتی ہے وہ نیت ہی کی بنیاد پر ہے ۔ انما الاعمال بالنیات ۔گویا اعمال کی صحت تصحیح نیت پر موقوف ہے ،جس قدر نیت خالص ہوگی اعمال میں اسی قدر رنگ آئے گا ،اتنا ہی زیادہ اعمال ثمر آور ثابت ہوں گے ۔ حدیث شریف میں ارشاد ہے ۔ اللہ سبحانہ تمہاری صورتوں کو دیکھتے ہیں نہ اعمال کے ظواہر کو بلکہ وہ نیتوں کو اور قلوب کو دیکھتے ہیں ۔ان اللہ لا ینظر الی صورکم ولا الی اعمالکم بل ینظر الیٰ قلوبکم ونیاتکم۔ اسی حقیقت کو قرآن پاک میں قربانی کے ضمن میں فرمایا گیا ۔ اللہ کے یہاں نہ تو تمہاری قربانیوں کا گوشت پہونچتا ہے نہ خون ، ہاں پہونچنے والی چیز صرف تقوی ہے۔ رمضان پاک کے مبارک مہینہ کا اختتام امت کے ہر فرد کے حق میں ایک ایسا ہی بہار آفریں انقلاب ثابت ہو۔مذکورہ بالا امور پر جب تک توجہ نہ دی جائے کسی صالح انقلاب کی توقع ممکن نہیں ۔حق سبحانہ کا ارشاد پاک ہے ۔ یہ اس وجہ سے ممکن ہوا کہ اللہ تعالی نے اس انعام کو جو کسی پر کرتا ہے اس وقت تک اس کو نہیں بدلتا جب تک کہ وہ اس کو نہ بدلدے جو ان کے نفسوں میں ہے۔ بیشک اللہ سبحانہ کی قوم کی حالت اس وقت تک نہیں بدلتا جب تک کہ اپنے کو وہ خود نہ بدلیں۔ علامہ اقبال رحمہ اللہ نے بڑی حد تک اس کی ترجمانی ان الفاظ میں کی ہے
خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا
اللہ سبحانہ کے انسانوں پر بے حد وحساب احسانات ہیں اس کی ان گنت نعمتیں ہر آن ہر ایک کے شامل حال ہیں ،شکران نعمت کے جذبات واحساسات ایک صالح انقلاب کے ضامن ہیں ،انسان خواہ کو ئی ہو شکران نعمت کا طریقہ اختیار کرکے اللہ کا محبوب بن سکتا ہے ۔ سماج کے تمام افراد بھی اس روش کو اختیار کرکے اللہ سبحانہ کے چہیتے بندے بن سکتے ہیں ۔ رمضان المبارک بھی ایک عظیم انعام ہے اس کے مقصود کو سامنے رکھ کر اس کا حق ادا کیا جائے اور تمام زندگی اسی متقیانہ روش پر چلتے ہوئے گزاری جائے تو وَأَنتُمُ الْأَعْلَوْنَ إِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِيْنَکے مژدہ ٔ جاں فزا کا استحقاق آج بھی ثابت ہوسکتا ہے اور تاقیام قیامت اسی روش پر قائم رہ کر ہی اس استحقاق کا اپنے آپ کو حقدار ثابت کیا جاسکتا ہے ،یقیناً ایمان کی طاقت وقوت ہی میں امت کی سربلندی وسرفرازی کا راز مضمر ہے ۔کفران نعمت کی روش ہر دور میں ناکامی کا منہ دکھاتی ہے ،فرد اور جماعت ہر ایک کے حق میں کفران نعمت سخت مضر ہے ۔ کفران نعمت یہ ہے کہ اطاعت کے بجائے عصیان وطغیان اختیار کرکے حق سے اعراض کی راہ اپنائی جائے ۔رمضان پاک کی ساعات اس کی عبادات ایمان والوں کو کفران نعمت کی روش سے ہٹاکر شکران نعمت کی روش پر قائم کرتی ہیں ۔ پورا حال وماحول شاکرانہ طرز وروش سے معمور ہوجاتا ہے ،رمضان پاک کی آمد اور اس کا اختتام ان ہی احساسات کو تادم زیست تازہ رکھے ،رمضان پاک کا روحانی ونورانی پرکیف ایمانی ماحول دیگر تمام مہینوں پر اس طرح اثر انداز ہوجائے کہ ایمان والوں کی طاعات وعبادات سے معمور زندگی دیکھ کر دنیا والوں کو سال تمام کی ہر ساعت وگھڑی پر گویا کا رمضان پاک کا گمان ہونے لگے ۔