ماہ صفر اور باطل نظریات

   

ماہ ”صَفَرُ المُظَفَّر“ اسلامی کیلنڈر کا دوسرا مہینہ ہے،صفر کو زمانہ جاہلیت سے ہی منحوس، آسمانوں سے بلائیں اترنے والا اور آفتیں نازل ہونے والا مہینہ سمجھا جاتا رہا ہے اور زمانہٴ جاہلیت کے لوگ اس ماہ میں خوشی کی تقریبات جیسے شادی بیاہ،سفر پہ جانا اور کاروبار کے آغاز نہیں کیا کرتے تھے وہ ماہ صفر کو منحوس سمجھتے تھے۔عرب کے تاریک صحراؤں میں اسلام کا روشن چاند منور ہوا تو بے آب و گیا ریگستان بھی رحمتوں کی بارش سے سیراب ہوگیا تاہم لوگوں میں موجود باطل نظریات غلط فہمی اور کہیں کم علمی کے باعث نسل در نسل چلے آئے جس کی وجہ سے مسلمانوں میں بھی کچھ لوگ ماہ صفر میں خوشی کی کوئی تقریب منعقد کرنے سے کتراتے ہیں۔ آیئے دیکھتے ہیں کہ قرآن اور احادیثِ رسول ﷺ اس سلسلے میں ہماری کیا رہنما ئی فرماتے ہیں۔

قرآن کیا رہنمائی کرتا ہے؟
اللہ تبارک و تعالیٰ نوع انسانی کے لیے اپنے آخری پیغام قرآن کی سورہ توبہ میں فرماتے ہیں کہ اللہ کے نزدیک مہینوں کی گنتی ۱۲ہے اور یہ تب سے ہے جب سے زمین و آسمان کی تخلیق کی گئی ہے۔اسی طرح اللہ کے آخری کلام میں جگہ جگہ دن اور رات کے آنے اور مہینوں کے سال میں تبدیل ہونے کو افضل اور غیر افضل سے قطع نظر سورج و چاند کی گردش سے موسوم کیا گیا۔’’بیشک آسمانوں اور زمین کی تخلیق میں اور شب و روز کی گردِش میں عقلِ سلیم والوں کے لیے (اللہ کی قدرت کی) نشانیاں ہیںo یہ وہ لوگ ہیں جو (سراپا نیاز بن کر) کھڑے اور (سراپا اَدب بن کر) بیٹھے اور (ہجر میں تڑپتے ہوئے) اپنی کروٹوں میں (بھی) اللہ کو یاد کرتے رہتے ہیں اور آسمانوں اور زمین کی تخلیق (میں کارفرما اُس کی عظمت اور حسن کے جلوؤں) میں فکر کرتے رہتے ہیں، (پھر اُس کی معرفت سے لذّت آشنا ہو کر پکار اُٹھتے ہیں) : ’’اے ہمارے ربّ! تو نے یہ (سب کچھ) بے حکمت اور بے تدبیر نہیں بنایا، تو (سب کوتاہیوں اور مجبوریوں سے) پاک ہے، ہمیں دوزخ کے عذاب سے بچا لے‘‘o (آل عمران، ۳ :۱۹۰،۱۹۱)اسی طرح سورہ رحمن اور سورہ یٰسین میں زمین و آسمان کے خالق نے چاند اور سورج کی منازل اور اپنے اپنے مداروں میں محو حرکت رہنے کی آیات کے بعد نسل انسانی کو ایک اللہ کی عبادت کی دعوت دی جو اس بات کی غماز ہے کہ ماہ و سال اللہ نے ایک مخصوص نظام کے تحت بنائے جس میں نحوست کا شائبہ تک نہیں۔

احادیثِ رسول ہمیں کیا درس دیتی ہیں؟
سرکارِ دوعالم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے بہت ہی صاف اور واضح الفاظ میں اس مہینے اور اس مہینے کے علاوہ پائے جانے والے توہمات اور قیامت تک کے باطل نظریات کی تردید اور نفی فرماتے ہوئے علی الاِعلان ارشاد فرمایا کہ: (اللہ تعالی کے حکم کے بغیر) ایک شخص کی بیماری کے دوسرے کو (خود بخود) لگ جانے(کا عقیدہ)، ماہِ صفر(میں نحوست ہونے کا عقیدہ) اور ایک مخصوص پرندے کی بد شگونی (کا عقیدہ) سب بے حقیقت باتیں ہیں۔(صحیح البخاري)
مذکورہ حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ اسلام میں اس قسم کے فاسد و باطل خیالات و نظریات کی کوئی گنجائش نہیں، ایسے نظریات و عقائد کو سرکارِدو عالم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے پاوٴں تلے روند چکے ہیں۔

صحابہ کرام واہل بیت کا طریقہ کیا تھا؟
قرآن و احادیث کے انہی واضح احکامات کا نتیجہ تھا کہ اصحاب کرامؓ اور اہل بیتؓ نے زمانہ جاہلیت کے باطل خیالات کو رد کرتے ہوئے ماہ صفر میں خوشی کی تقریب منعقد کی اور اس مہینے کو کسی بھی دوسرے اسلامی مہینے سے کم تر نہ جانا جس کی سنہری مثال رسول اللہ کی لختِ جگر جنابِ فاطمہؓ کا عقد مبارک رسول اللہ کی نگرانی میں حضرت علیؓ کے ساتھ اسی ماہ منعقد ہوا۔ اگر ماہ صفر نحوست کا مہینہ ہوتا تو کبھی آخری پیغمبر ﷺ اپنی بیٹی کی شادی اس مہینے میں سر انجام نہیں دیتے اور اب رہتی دنیا تک کے مسلمانوں کے لیے یہ نمونہ عمل بن گیا ہے۔ اسلام میں نحوست وقت کا نظریہ نہیں ہے اور خود رسول اللہ ﷺ فرما چکے ہیں کہ صفر میں کو ئی نحوست نہیں ہے۔ یہ تو توہم پرست لوگوں کی روایات اور باطل نظریات ہیں جسے اسلام نے نیست و نابود کیا تھا،امن، سلامتی،رحمت،برکت اور بخشش کا دِین دنیا میں آیا ہی نحوست کے خاتمے کے لیے تھا۔
تاہم اسلام میں کسی دن کو دوسرے دن پر یا کسی مہینے کو دوسرے مہینے پر سبقت حاصل ہے جیسے جمعتہ المبارک سارے دِنوں کا سردار ہے جب کہ ماہ رمضان تمام مہینوں سے افضل مہینہ اور شب قدر تمام راتوں سے افضل رات ہے اور یہ سبقت و فضیلت ان دنوں میں کی جانے والی عبادت کی وجہ ہے جس کی وجہ سے اللہ کی رحمت خصوصی طور پر متوجہ ہوتی ہے لہذا مسلمان ان مواقع پر خصوصی عبادات کا اہتمام کریں۔
مرسلہ : احمد حسن